وَإِنَّهُ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَةِ فَلَا تَمْتَرُنَّ بِهَا وَاتَّبِعُونِ ۚ هَٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِيمٌ
اور وہ (عیسیٰ) تو قیامت کی ایک علامت [٦٠] ہے۔ لہٰذا اس (کے آنے) میں ہرگز شک نہ کرو اور میری پیروی کرو یہی سیدھی راہ ہے۔
1- عِلْمٌ بمعنی علامت ہے۔ اکثر مفسرین کے نزدیک اس کا مطلب یہ ہے کہ قیامت کے قریب ان کا آسمان سے نزول ہوگا، جیسا کہ صحیح اور متواتر احادیث سے ثابت ہے۔ یہ نزول اس بات کی علامت ہوگا کہ اب قیامت قریب ہے اسی لیے بعض نے اسے عین اور لام کے زبر کے ساتھ (عَلَمٌ) پڑھا ہے، جس کے معنی ہی نشانی اور علامت کے ہیں۔ اور بعض کے نزدیک انہیں قیامت کی نشانی قرار دینا، ان کی معجزانہ ولادت کی بنیاد پر ہے۔ یعنی جس طرح اللہ نے ان کو بغیر باپ کے پیدا کیا۔ ان کی یہ پیدائش اس بات کی علامت ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت والے دن تمام انسانوں کو دوبارہ زندہ فرما دےگا، اس لیے قدرت الٰہی کو دیکھتے ہوئے وقوع قیامت میں کوئی شک کی گنجائش نہیں ہے۔ إِنَّهُ میں ضمیر کا مرجع حضرت عیسیٰ (عليہ السلام) ہیں۔