وَقَالُوا أَآلِهَتُنَا خَيْرٌ أَمْ هُوَ ۚ مَا ضَرَبُوهُ لَكَ إِلَّا جَدَلًا ۚ بَلْ هُمْ قَوْمٌ خَصِمُونَ
اور کہنے لگے : کیا ہمارے الٰہ اچھے ہوئے [٥٦] یا وہ (عیٰسی)؟ وہ آپ کے سامنے یہ مثال صرف کج بحثی کی خاطر لائے ہیں۔ بلکہ یہ ہیں ہی جھگڑالو [٥٧] قوم
1- شرک کی تردید اور جھوٹے معبودوں کی بےوقعتی کی وضاحت کے لیے جب مشرکین مکہ سے کہا جاتا کہ تمہارے ساتھ تمہارے معبود بھی جہنم میں جائیں گے تو اس سے مراد وہ پتھر کی مورتیاں ہوتی ہیں جن کی وہ عبادت کرتے تھے، نہ کہ وہ نیک لوگ، جو اپنی »زندگیوں میں لوگوں کو توحید کی دعوت دیتے رہے، مگر ان کی وفات کے بعد ان کے معتقدین نے انہیں بھی معبود سمجھنا شروع کردیا۔ ان کی بابت تو قرآن کریم نے ہی واضح کردیا ہے کہ یہ جہنم سے دور رہیں گے۔ ﴿إِنَّ الَّذِينَ سَبَقَتْ لَهُمْ مِنَّا الْحُسْنَى أُولَئِكَ عَنْهَا مُبْعَدُونَ ﴾(الأنبياء: 101) کیونکہ اس میں ان کا اپنا کوئی قصور نہیں تھا۔ اسی لیے قرآن نے اس کے لیے جو لفظ استعمال کیا ہے، وہ لفظ ما ہے جو غیر عاقل کے لیے استعمال ہوتا ہے ﴿إِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ﴾ (الأنبياء: 98) اس سے انبیا علیہم السلام اور وہ صالحین نکل گئے، جن کو لوگوں نے اپنے طور پر معبود بنائے رکھا ہوگا۔ یعنی یہ تو ممکن ہے کہ دیگر مورتیوں کے ساتھ ان کی شکلوں کی بنائی ہوئی مورتیاں بھی اللہ تعالیٰ جہنم میں ڈال دے لیکن یہ شخصیات تو بہرحال جہنم سے دور ہی رہیں گی۔ لیکن مشرکین نبی (ﷺ) کی زبان مبارک سے حضرت مسیح (عليہ السلام) کا ذکر خیر سن کر یہ کٹ حجتی اور مجادلہ کرتے کہ جب حضرت عیسیٰ (عليہ السلام) قابل مدح ہیں دراں حالیکہ عیسائیوں نے انہیں معبود بنایا ہوا ہے، تو پھر ہمارے معبود کیوں برے؟ کیا وہ بھی بہتر نہیں؟ یا اگر ہمارے معبود جہنم میں جائیں گے تو حضرت عیسیٰ (عليہ السلام) اور حضرت عزیر (عليہ السلام) بھی پھر جہنم میں جائیں گے۔ اللہ نے یہاں فرمایا، ان کا خوشی سے چلانا، ان کا جدل محض ہے۔ جدل کا مطلب ہی یہ ہوتا ہے کہ جھگڑنے والا جانتا ہے کہ اس کے پاس دلیل کوئی نہیں ہے لیکن محض اپنی بات کی پچ میں بحث وتکرار سے گریز نہیں کرتا۔