سورة الشورى - آیت 18

يَسْتَعْجِلُ بِهَا الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِهَا ۖ وَالَّذِينَ آمَنُوا مُشْفِقُونَ مِنْهَا وَيَعْلَمُونَ أَنَّهَا الْحَقُّ ۗ أَلَا إِنَّ الَّذِينَ يُمَارُونَ فِي السَّاعَةِ لَفِي ضَلَالٍ بَعِيدٍ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

جو لوگ اس (قیامت) پر ایمان نہیں رکھتے وہ تو اس کے لئے جلدی مچاتے ہیں اور جو ایمان لاتے ہیں وہ اس سے ڈرتے [٢٨] ہیں اور جانتے ہیں کہ وہ ایک حقیقت ہے یاد رکھو ! ! جو لوگ قیامت کے بارے میں بحثیں کرتے ہیں وہ گمراہی میں دور تک چلے گئے ہیں

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- یعنی استہزا کے طور پر یہ سمجھتے ہوئے کہ اس کو آنا ہی کہاں ہے؟ اس لیے کہتے ہیں کہ قیامت جلدی آئے۔ 2- اس لیے کہ ایک تو ان کو اس کے وقوع کا پورا یقین ہے۔ دوسرے ان کو خوف ہے کہ اس روز بے لاگ حساب ہوگا، کہیں وہ بھی مواخذہ الٰہی کی زد میں نہ آجائیں۔ جیسے دوسرے مقام پر ہے۔ ﴿وَالَّذِينَ يُؤْتُونَ مَا آتَوْا وَقُلُوبُهُمْ وَجِلَةٌ أَنَّهُمْ إِلَى رَبِّهِمْ رَاجِعُونَ﴾ (المؤمنون: 60)۔ 3- يُمَارُونَ، مُمَارَاةٌ سے ہے جس کے معنی لڑنا جھگڑنا ہیں۔ یا مریہ سے ہے، بمعنی ریب وشک۔ 4- اس لیے کہ وہ ان دلائل پر غوروفکر ہی نہیں کرتے جو ایمان لانے کےموجب بن سکتے ہیں حالانکہ یہ دلائل روز وشب ان کے مشاہدے میں آتے ہیں۔ ان کی نظروں سے گزرتے ہیں اور ان کی عقل وفہم میں آسکتے ہیں۔ اس لیے وہ حق سے بہت دور جا پڑے ہیں۔