سورة الشورى - آیت 14

وَمَا تَفَرَّقُوا إِلَّا مِن بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْعِلْمُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ ۚ وَلَوْلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِن رَّبِّكَ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى لَّقُضِيَ بَيْنَهُمْ ۚ وَإِنَّ الَّذِينَ أُورِثُوا الْكِتَابَ مِن بَعْدِهِمْ لَفِي شَكٍّ مِّنْهُ مُرِيبٍ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

ان لوگوں میں فرقہ بندی اس وقت پیدا ہوئی جبکہ اس سے پہلے ان کے پاس علم (وحی) آچکا تھا (اور اس کی وجہ محض) ان کی باہمی ضد بازی [١٨] تھی۔ اور اگر آپ کے پروردگار کی طرف سے ایک مقررہ مدت تک کا حکم پہلے سے طے شدہ [١٩] نہ ہوتا تو ان کا قضیہ چکا دیا گیا ہوتا۔ اور ان کے بعد جو لوگ کتاب کے وارث ہوئے وہ ایسے شک [٢٠] میں پڑگئے جو انہیں بے چین کئے رکھتا تھا۔

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- یعنی انہوں نے اختلاف اور تفرق کا راستہ علم یعنی ہدایت آجانے اور اتمام حجت کے بعد اختیار کیا، جب کہ اختلاف کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا۔ لیکن محض بغض وعناد، ضد اور حسد کی وجہ سے ایسا کیا۔ اس سے بعض نے یہود اور بعض نے قریش مکہ مراد لیے ہیں۔ 2- یعنی اگر ان کی بابت عقوبت میں تاخیر کا فیصلہ پہلے سے نہ ہوتا تو فوراً عذاب بھیج کر ان کو ہلاک کردیا جاتا۔ 3- اس سے مراد یہود و نصاریٰ ہیں جو اپنے سے ماقبل کے یہود و نصاریٰ کے بعد کتاب یعنی تورات وانجیل کے وارث بنائے گئے۔ یا مراد عرب ہیں، جن میں اللہ تعالیٰ نے اپنا قرآن نازل فرمایا اور انہیں قرآن کا وارث بنایا۔ پہلے مفہوم کے اعتبار سے ”الکتاب“ سے تورات وانجیل اور دوسرے مفہوم کے لحاظ سے اس سے مراد قرآن کریم ہے۔