سورة فصلت - آیت 44

وَلَوْ جَعَلْنَاهُ قُرْآنًا أَعْجَمِيًّا لَّقَالُوا لَوْلَا فُصِّلَتْ آيَاتُهُ ۖ أَأَعْجَمِيٌّ وَعَرَبِيٌّ ۗ قُلْ هُوَ لِلَّذِينَ آمَنُوا هُدًى وَشِفَاءٌ ۖ وَالَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ فِي آذَانِهِمْ وَقْرٌ وَهُوَ عَلَيْهِمْ عَمًى ۚ أُولَٰئِكَ يُنَادَوْنَ مِن مَّكَانٍ بَعِيدٍ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اور اگر ہم اس قرآن کی زبان غیر عربی [٥٥] بنا دیتے تو کافر کہتے کہ اس کی آیات واضح کیوں نہیں کی گئیں۔ یہ کیا کہ کتاب تو عجمی زبان میں ہو اور مخاطب عربی ہوں؟ آپ ان سے کہئے کہ : جو لوگ ایمان لائے ہیں ان کے [٥٦] لئے تو یہ کتاب ہدایت اور شفا ہے اور جو ایمان نہیں لاتے ان کے کانوں میں ثقل ہے۔ اور وہ (قرآن) ان پر دھندلا [٥٧] ہی رہتا ہے ان لوگوں کا حال تو ایسا ہے جیسے کہیں دور جگہ سے انہیں پکارا [٥٨] جارہا ہو۔

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- یعنی عربی کے بجائے کسی اور زبان میں قرآن نازل کرتے۔ 2- یعنی ہماری زبان میں اسے بیان کیوں نہیں کیاگیا،جسےہم سمجھ سکتے، کیونکہ ہم توعرب ہیں، عجمی زبان نہیں سمجھتے۔ 3- یہ بھی کافروں ہی کا قول ہےکہ وہ تعجب کرتے ہیں کہ رسول تو عربی ہے اور قرآن اس پر عجمی زبان میں نازل ہوا ہے۔ مطلب یہ کہ قرآن کو عربی زبان میں نازل فرما کر اس کے اولین مخاطب عربوں کے لیے کوئی عذر باقی نہیں رہنے دیا۔ ہے اگر یہ غیر عربی زبان میں ہوتا تو وہ عذر کر سکتے تھے۔ 4- یعنی جس طرح دور کا شخص، دوری کی وجہ سے پکارنے والے کی آواز سننے سے قاصر رہتا ہے، اسی طرح ان لوگوں کی عقل وفہم میں قرآن نہیں آتا۔