سورة آل عمران - آیت 128

لَيْسَ لَكَ مِنَ الْأَمْرِ شَيْءٌ أَوْ يَتُوبَ عَلَيْهِمْ أَوْ يُعَذِّبَهُمْ فَإِنَّهُمْ ظَالِمُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اے نبی آپ کا اس بات میں کچھ اختیار نہیں۔ اللہ چاہے تو انہیں معاف کردے، چاہے تو سزا دے [١١٧] وہ بہرحال ظالم تو ہیں ہی

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- یعنی ان کافروں کو ہدایت دینا یا ان کے معاملے میں کسی بھی قسم کا فیصلہ کرنا سب اللہ کے اختیار میں ہے۔ احادیث میں آتا ہے کہ جنگ احد میں نبی کریم (ﷺ) کے دندان مبارک بھی شہید ہوگئے اور چہرہ مبارک بھی زخمی ہوا تو آپ (ﷺ) نے فرمایا ”وہ قوم کس طرح فلاح یاب ہوگی جس نے اپنے نبی کو زخمی کر دیا“، گویا آپ (ﷺ) نے ان کی ہدایت سے ناامیدی ظاہر فرمائی۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ اسی طرح بعض روایات میں آتا ہے کہ آپ (ﷺ) نے بعض کفار کے لئے قنوت نازلہ کا بھی اہتمام فرمایا جس میں ان کے لئے بددعا فرمائی جس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی،چنانچہ آپ (ﷺ) نے بددعا کا سلسلہ بند فرما دیا۔ (ابن کثیر وفتح القدیر) اس آیت سے ان لوگوں کو عبرت پکڑنی چاہیئے جو نبی کریم (ﷺ) کو مختار کل قراردیتے ہیں کہ آپ (ﷺ) کو تو اتنا اختیار بھی نہ تھا کہ کسی کو راہ راست پر لگا دیں حالانکہ آپ (ﷺ) اسی راستے کی طرف بلانے کے لئے بھیجے گئے تھے۔ 2- یہ قبیلےجن کے لئے بددعا فرماتے رہے اللہ کی توفیق سے سب مسلمان ہوگئے۔ جن سے معلوم ہوا کہ مختار کل اور عالم الغیب صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے۔