سورة غافر - آیت 34

وَلَقَدْ جَاءَكُمْ يُوسُفُ مِن قَبْلُ بِالْبَيِّنَاتِ فَمَا زِلْتُمْ فِي شَكٍّ مِّمَّا جَاءَكُم بِهِ ۖ حَتَّىٰ إِذَا هَلَكَ قُلْتُمْ لَن يَبْعَثَ اللَّهُ مِن بَعْدِهِ رَسُولًا ۚ كَذَٰلِكَ يُضِلُّ اللَّهُ مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ مُّرْتَابٌ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اس سے پہلے یوسف تمہارے پاس واضح دلائل لے کر آئے تھے، مگر جو کچھ وہ لائے اس کے متعلق تم شک [٤٨] ہی میں پڑے رہے۔ یہاں تک کہ وہ فوت ہوگئے تو تم کہنے لگے کہ اس کے بعد اللہ ہرگز کوئی رسول نہیں بھیجے گا۔ اسی طرح اللہ ایسے لوگوں کو گمراہ کردیتا ہے جو حد سے بڑھنے والے اور شک کرنے والے ہوں

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- یعنی اے اہل مصر! حضرت موسیٰ (عليہ السلام) سے قبل تمہارے اسی علاقے میں، جس میں تم آباد ہو، حضرت یوسف (عليہ السلام) بھی دلائل وبراہین کے ساتھ آئےتھے۔ جس میں تمہارے آبا واجداد کو ایمان کی دعوت دی گئی تھی یعنی جَاءَكُمْ سےمراد جَاءَ إِلَى آبَائِكُمْ ہے یعنی تمہارے آبا واجدادکے پاس آئے۔ 2- لیکن تم ان پر بھی ایمان نہیں لائے اور ان کی دعوت میں شک وشبہ ہی کرتے رہے۔ 3- یعنی یوسف (عليہ السلام) پیغمبر کی وفات ہو گئی۔ 4- یعنی تمہارا شیوہ چونکہ ہر پیغمبرکی تکذیب اورمخالفت ہی رہا ہے، اس لیے سمجھتے تھے کہ اب کوئی رسول ہی نہیں آئے گا، یا یہ مطلب ہے کہ رسول کا آنا یا نہ آنا، تمہارے لیے برابر ہے یا یہ مطلوب ہے کہ ایسا باعظمت انسان کہاں پیدا ہو سکتا ہے جورسالت سے سرفراز ہو۔ گویا بعد از مرگ حضرت یوسف (عليہ السلام) کی عظمت کا اعتراف تھا۔ اور بہت سے لوگ ہر اہم ترین انسان کی وفات کے بعد یہی کہتے ہیں۔ 5- یعنی اس واضح گمراہی کی طرح، جس میں تم مبتلا ہو، اللہ تعالیٰ ہر اس شخص کو بھی گمراہ کرتا ہے جو نہایت کثرت سے گناہوں کا ارتکاب کرتا اور اللہ کے دین، اس کی وحدانیت اور اس کے وعدوں وعیدوں میں شک کرتا ہے۔