فَإِذَا مَسَّ الْإِنسَانَ ضُرٌّ دَعَانَا ثُمَّ إِذَا خَوَّلْنَاهُ نِعْمَةً مِّنَّا قَالَ إِنَّمَا أُوتِيتُهُ عَلَىٰ عِلْمٍ ۚ بَلْ هِيَ فِتْنَةٌ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ
انسان کو جب کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو ہمیں پکارتا [٦٥] ہے، پھر جب ہم اسے اپنی نعمت سے نوازتے ہیں تو کہتا ہے : مجھے تو یہ چیز علم [٦٦] (اور تجربہ) کی بنا پر حاصل ہوئی ہے (بات یوں نہیں) بلکہ یہ ایک آزمائش [٦٧] ہوتی ہے مگر ان میں سے اکثر جانتے نہیں۔
1- یہ انسان کا بہ اعتبار جنس، ذکر ہے۔ یعنی انسانوں کی اکثریت کا یہ حال ہے کہ جب ان کو بیماری، فقر وفاقہ یا کوئی اور تکلیف پہنچتی ہے تواس سے نجات پانے کے لیے اللہ سے دعائیں کرتا اور اس کےسامنے گڑگڑاتا ہے۔ 2- یعنی نعمت ملتے ہی سرکشی اور طغیان کا راستہ اختیار کرلیتا ہے اور کہتا ہے کہ اس میں اللہ کا کیا احسان؟ یہ تو میری اپنی دانائی کا نتیجہ ہے۔ یا جو علم وہنر میرے پاس ہے، اس کی بدولت یہ نعمتیں حاصل ہوئی ہیں یا مجھے معلوم تھا کہ دنیا میں یہ چیزیں مجھے ملیں گی کیونکہ اللہ کے ہاں میرا بہت مقام ہے۔ 3- یعنی بات وہ نہیں ہے جو توسمجھ رہا یا بیان کر رہا ہے، بلکہ یہ نعمتیں تیرے لیے امتحان اور آزمائش ہیں کہ تو شکر کرتا ہے یا کفر؟ 4- اس بات سے کہ یہ اللہ کی طرف سے استدراج اور امتحان ہے۔