سورة البقرة - آیت 33

قَالَ يَا آدَمُ أَنبِئْهُم بِأَسْمَائِهِمْ ۖ فَلَمَّا أَنبَأَهُم بِأَسْمَائِهِمْ قَالَ أَلَمْ أَقُل لَّكُمْ إِنِّي أَعْلَمُ غَيْبَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَأَعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَمَا كُنتُمْ تَكْتُمُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اللہ تعالیٰ نے آدم سے فرمایا ’’اے آدم! ان (فرشتوں) کو ان اشیاء کے نام بتا دو۔ ‘‘ تو جب آدم نے فرشتوں کو ان چیزوں کے نام بتا دیئے [٤٥] تو اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے کہا : ’’کیا میں نے تمہیں یہ نہ کہا تھا کہ میں ہی آسمانوں اور زمین کی پوشیدہ باتیں جانتا ہوں اور ان باتوں کو بھی جانتا ہوں جو تم ظاہر کرتے ہو اور ان کو بھی جو تم چھپاتے ہو؟‘‘

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1-اسماء سے مراد مسمیات (اشخاص واشیا) کے نام اور ان کے خواص وفوائد کا علم ہے، جو اللہ تعالیٰ نے القا والہام کے ذریعے حضرت آدم (عليہ السلام) کو سکھلا دیا۔ پھر جب ان سے کہا گیا کہ آدم (عليہ السلام) ان کے نام بتلاؤ تو انہوں نے فوراً سب کچھ بیان کردیا، جو فرشتے بیان نہ کرسکے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے ایک تو فرشتوں پر حکمت تخلیق آدم واضح کردی۔ دوسرے دنیا کا نظام چلانے کے لئے علم کی اہمیت وفضیلت بیان فرما دی، جب یہ حکمت واہمیت علم فرشتوں پر واضح ہوئی، تو انہوں نے اپنے قصور علم و فہم کا اعتراف کرلیا۔ فرشتوں کے اس اعتراف سے یہ بھی واضح ہوا کہ عالم الغیب صرف اللہ کی ذات ہے، اللہ کے برگزیدہ بندوں کو بھی اتنا ہی علم ہوتا ہے جتنا اللہ تعالیٰ انہیں عطا فرماتا ہے۔