سورة آل عمران - آیت 111

لَن يَضُرُّوكُمْ إِلَّا أَذًى ۖ وَإِن يُقَاتِلُوكُمْ يُوَلُّوكُمُ الْأَدْبَارَ ثُمَّ لَا يُنصَرُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

یہ لوگ معمولی تکلیف [١٠١] پہنچانے کے سوا تمہارا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتے۔ اگر یہ لوگ تم سے جنگ کریں تو دم دبا کر بھاگ نکلیں گے پھر انہیں کہیں سے بھی مدد نہ مل سکے گی

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- أَذًى ( ستانے) سے مراد زبانی بہتان تراشی اور افترا ہے جس سے دل کو وقتی طور پر ضرور تکلیف پہنچتی ہے تاہم میدان حرب وضرب میں یہ تمہیں شکست نہیں دے سکیں گے چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ مدینہ سے بھی یہودیوں کو نکلنا پڑا، پھر خیبر فتح ہو گیا اور وہاں سے بھی نکلے، اسی طرح شام کے علاقوں میں عیسائیوں کو مسلمانوں کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ تاآنکہ حروب صلیبیہ میں عیسائیوں نے اس کا بدلہ لینے کی کوشش کی اور بیت المقدس پر قابض بھی ہوگئے مگر اسے سلطان صلاح الدین ایوبی نے سال کے بعد واگزار کرالیا۔ لیکن اب مسلمانوں کی ایمانی کمزوری کے نتیجہ میں یہود ونصاریٰ کی مشترکہ سازشوں اور کوششوں سے بیت المقدس پھر مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل گیا ہے۔ تاہم ایک وقت آئے گا یہ صورت حال تبدیل ہو جائے گی بالخصوص حضرت عیسیٰ (عليه السلام) کے نزول کے بعد عیسائیت کا خاتمہ اور اسلام کا غلبہ یقینی ہے جیسا کہ صحیح احادیث میں وارد ہے۔ (ابن کثیر )