قَالَ لَقَدْ ظَلَمَكَ بِسُؤَالِ نَعْجَتِكَ إِلَىٰ نِعَاجِهِ ۖ وَإِنَّ كَثِيرًا مِّنَ الْخُلَطَاءِ لَيَبْغِي بَعْضُهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَقَلِيلٌ مَّا هُمْ ۗ وَظَنَّ دَاوُودُ أَنَّمَا فَتَنَّاهُ فَاسْتَغْفَرَ رَبَّهُ وَخَرَّ رَاكِعًا وَأَنَابَ ۩
داؤد نے جواب دیا کہ اس شخص نے تیری دنبی کو اپنی دنبیوں میں ملانے کے لئے اس کا سوال کرکے تجھ پر ظلم کیا ہے۔ اور اکثر خلیط [٢٨] ایک دوسرے پر زیادتی [٢٩] کرتے ہی رہتے ہیں سوائے ان لوگوں کے جو ایماندار ہوں اور نیک عمل کرتے ہوں اور ایسے لوگ تھوڑے ہی ہوتے ہیں۔ اب داؤد کو خیال آیا کہ (اس مقدمہ سے) دراصل ہم نے اس کی آزمائش [٣٠] کی ہے۔ چنانچہ انہوں نے اپنے پروردگار سے معافی مانگی اور رکوع میں گر گئے اور اس کی طرف رجوع [٣١] کیا۔
1- البتہ اس اخلاقی کوتاہی سے اہل ایمان محفوظ ہیں، کیونکہ ان کے دلوں میں اللہ کا خوف ہوتا ہے اور عمل صالح کے وہ پابند ہوتے ہیں۔ اس لئےکسی پر زیادتی کرنا اور دوسرے کا مال ہڑپ کر جانے کی سعی کرنا، ان کے مزاج میں شامل نہیں ہوتا۔ وہ تو دینے والے ہوتے ہیں، لینے والے نہیں۔ تاہم ایسے بلند کردار لوگ تھوڑے ہی ہوتے ہیں۔ 2- ﴿وَخَرَّ رَاكِعًا﴾ کا مطلب یہاں سجدے میں گر پڑنا ہے۔