لِيَأْكُلُوا مِن ثَمَرِهِ وَمَا عَمِلَتْهُ أَيْدِيهِمْ ۖ أَفَلَا يَشْكُرُونَ
تاکہ وہ اس کے پھل کھائیں حالانکہ یہ سب کچھ ان [٣٣] کے ہاتھوں نے نہیں بنایا۔ پھر کیا وہ شکر ادا نہیں کرتے۔
1- یعنی بعض جگہ بھی چشمے جاری کرتے ہیں، جس کے پانی سے پیداہونے والے پھل لوگ کھائیں۔ 2- امام ابن جریر کے نزدیک یہاں ما نافیہ ہے یعنی غلوں اور پھلوں کی یہ پیداوار، اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت ہے جو وہ اپنے بندوں پر کرتا ہے۔ اس میں ان کی سعی ومحنت، کدوکاوش اور تصرف کا دخل نہیں ہے۔ پھر بھی یہ اللہ کی ان نعمتوں پر اس کا شکر کیوں نہیں کرتے؟ اور بعض کے نزدیک (مَا) موصولہ ہےجو الَّذِي کے معنی میں ہے یعنی تاکہ وہ اس کا پھل کھائیں اور ان چیزوں کو جن کو ان کے ہاتھوں نے بنایا۔ ہاتھوں کا عمل ہے، زمین کو ہموار کرکے بیج بونا، اسی طرح پھلوں کے کھانے کے مختلف طریقے ہیں، مثلاً انہیں نچوڑ کر ان کا رس پینا، مختلف فروٹوں کو ملاکر چاٹ بنانا، وغیرہ۔