سورة آل عمران - آیت 77

إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَأَيْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِيلًا أُولَٰئِكَ لَا خَلَاقَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ وَلَا يُكَلِّمُهُمُ اللَّهُ وَلَا يَنظُرُ إِلَيْهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

لیکن جو لوگ اللہ کے عہد کو اور اپنی قسموں کو تھوڑی سی قیمت کے عوض بیچ ڈالیں تو ایسے لوگوں کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں سے نہ تو کلام کرے گا، نہ ان کی طرف دیکھے گا اور نہ ہی انہیں گناہوں سے پاک کرے گا اور انہیں دکھ دینے والا عذاب [٦٧] ہوگا

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- مذکورہ افرادکے برعکس دوسرے لوگوں کا حال بیان کیا گیا ہے۔ اور یہ دو طرح کے لوگوں کو شامل ہے ایک تو وہ لوگ جو عہد الٰہی اور اپنی قسموں کو پس پشت ڈال کر تھوڑے سے دینی مفادات کے لئے نبی (ﷺ) پر ایمان نہیں لائے۔ دوسرے وہ لوگ ہیں جو جھوٹی قسمیں کھا کر اپنا سودا بیچتے یا کسی کا مال ہڑپ کر جاتے ہیں جیسا کہ احادیث میں وارد ہے۔ مثلاً نبی (ﷺ) نے فرمایا کہ ”جو شخص کسی کا مال ہتھیانے کے لئے جھوٹی قسم کھائے، وہ اللہ سے اس حال میں ملے گا کہ اللہ اس پر غضب ناک ہوگا“ (صحيح بخاري، كتاب المساقاة، باب الخصومة في البئر والقضاء فيها- مسلم، كتاب الإيمان، باب وعيد من اقتطع حق مسلم...) نیز فرمایا: ”تین آدمیوں سے اللہ تعالیٰ نہ کلام کرے گا، نہ ان کی طرف دیکھے گا، نہ انہیں پاک کرے گا اور ان کے لئے دردناک عذاب ہوگا، ان میں ایک وہ شخص ہے جو جھوٹی قسم کے ذریعے سے اپنا سودا بیچتا ہے“۔ (صحيح مسلم، كتاب الإيمان ، باب بيان غلظ تحريم إسبال الإزار...) متعدد احادیث میں یہ باتیں بیان کی گئی ہیں۔ (ابن کثیر وفتح القدیر)