وَاللَّهُ خَلَقَكُم مِّن تُرَابٍ ثُمَّ مِن نُّطْفَةٍ ثُمَّ جَعَلَكُمْ أَزْوَاجًا ۚ وَمَا تَحْمِلُ مِنْ أُنثَىٰ وَلَا تَضَعُ إِلَّا بِعِلْمِهِ ۚ وَمَا يُعَمَّرُ مِن مُّعَمَّرٍ وَلَا يُنقَصُ مِنْ عُمُرِهِ إِلَّا فِي كِتَابٍ ۚ إِنَّ ذَٰلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ
اللہ نے تمہیں مٹی سے، پھر نطفہ سے پیدا کیا ہے پھر تمہیں جوڑے جوڑے [١٧] بنایا۔ جو بھی مادہ حاملہ ہوتی یا بچہ جنتی ہے تو اللہ کو اس کا علم ہوتا ہے۔ اور کوئی بڑی عمر والا جو عمر دیا جائے یا اس کی عمر کم کی جائے تو یہ سب کچھ کتاب میں درج ہے۔ اللہ کے لئے یہ بات بالکل آسان ہے۔
1- یعنی تمہارے باپ آدم (عليہ السلام) کو مٹی سے اور پھر اس کے بعد تمہاری نسل کو قائم رکھنے کے لئے انسان کی تخلیق کو نطفے سے وابستہ کردیا، جومرد کی پشت سے نکل کر عورت کے رحم میں جاتا ہے۔ 2- یعنی اس سے کوئی چیز مخفی نہیں، حتیٰ کہ زمین پر گرنے والے پتے اور زمین کی تاریکیوں میں نشوونما پانے والے بیج کو بھی وہ جانتا ہے۔ (الأنعام: 59)۔ 3- اس کا مطلب یہ ہے کہ عمر کی طوالت اور اس کی تقصیر (کم ہونا) اللہ کی تقدیر وقضا سے ہے۔ علاوہ ازیں اس کے اسباب بھی ہیں جس سے عمر لمبی یا چھوٹی ہوتی ہے، طوالت کے اسباب میں صلۂ رحمی وغیرہ ہے، جیسا کہ احادیث میں ہے اور تقصیر کے اسباب سے معاصی کا ارتکاب ہے۔ مثلاً کسی آدمی کی عمر 70 سال ہے لیکن کبھی اسباب زیادت کی وجہ سے اللہ اس میں اضافہ فرما دیتا ہے اور کبھی اس میں کمی کردیتا ہے جب وہ اسباب نقصان اختیار کرتا ہے۔ اور یہ سب کچھ اس نے لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہے۔ اس لئے عمر میں یہ کمی بیشی ﴿فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ لا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً وَلا يَسْتَقْدِمُونَ﴾ کے منافی نہیں ہے۔ اس کی تائید اللہ کے اس قول سے بھی ہوتی ہے ﴿يَمْحُو اللَّهُ مَا يَشَاءُ وَيُثْبِتُ وَعِنْدَهُ أُمُّ الْكِتَابِ﴾ (سورة الرعد: 39) ”جو چاہتا ہے، مٹاتا اور ثبت کرتا ہے اور اس کے پاس لوح محفوظ ہے“۔ (فتح القدیر)۔