قُلْ إِنَّمَا أَعِظُكُم بِوَاحِدَةٍ ۖ أَن تَقُومُوا لِلَّهِ مَثْنَىٰ وَفُرَادَىٰ ثُمَّ تَتَفَكَّرُوا ۚ مَا بِصَاحِبِكُم مِّن جِنَّةٍ ۚ إِنْ هُوَ إِلَّا نَذِيرٌ لَّكُم بَيْنَ يَدَيْ عَذَابٍ شَدِيدٍ
آپ ان سے کہئے کہ : میں تمہیں ایک بات کی نصیحت کرتا ہوں کہ اللہ کے واسطے [٧٠] تم دو دو مل کر اور اکیلے اکیلے رہ کر خوب سوچو کہ آیا تمہارے صاحب ( رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں کوئی جنون کی بات ہے؟ وہ تو محض ایک سخت عذاب سے پہلے تمہیں ڈرانے والا [٧١] ہے۔
1- یعنی میں تمہیں تمہارے موجودہ طرزعمل سے ڈراتا ہوں اور ایک ہی بات کی نصیحت کرتا ہوں اور وہ یہ کہ تم ضد، اور انانیت چھوڑ کر صرف اللہ کے لئے ایک ایک دو دو ہو کر میری بابت سوچو کہ میری زندگی تمہارے اندر گزری ہے اوراب بھی جو دعوت میں دے رہا ہوں کیا اس میں کوئی ایسی بات ہے کہ جس سے اس بات کی نشاندہی ہو کہ میرے اندر دیوانگی ہے؟ تم اگر عصبیت اور خواہش نفس سے بالا ہو کر سوچو گے تو یقیناً تم سمجھ جاؤ گے کہ تمہارے رفیق کے اندر کوئی دیوانگی نہیں ہے۔ 2- یعنی وہ تو صرف تمہاری ہدایت کے لئے آیا ہے تاکہ تم اس عذاب شدید سے بچ جاؤ جو ہدایت کا راستہ نہ اپنانے کی وجہ سے تمہیں بھگتنا پڑے گا۔ حدیث میں آتا ہے کہ نبی کریم (ﷺ) ایک دن صفا پہاڑی پرچڑھ گئے اور فرمایا (یاصباحاہ) جسے سن کر قریش جمع ہوگئے، آپ (ﷺ) نے فرمایا ”بتلاؤ، اگر میں تمہیں خبردوں کہ دشمن صبح یا شام کو تم پر حملہ آور ہونے والا ہے، تو کیا تم میری تصدیق کرو گے؟“ انہوں نے کہا (کیوں نہیں) آپ (ﷺ) نے فرمایا ”تو پھر سن لو کہ میں تمہیں سخت عذاب آنے سے پہلے ڈراتا ہوں“ یہ سن کر ابولہب نے کہا (تَبًّا لَكَ! أَلِهَذَا جَمَعْتَنَا) (تیرے لئے ہلاکت ہو، کیا اس لئے تونے ہمیں جمع کیا تھا؟) جس پر اللہ تعالیٰ نے سورۂ ﴿تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ﴾ نازل فرمائی۔ (صحيح بخاری، تفسير سورة سبأ)۔