وَقَالُوا نَحْنُ أَكْثَرُ أَمْوَالًا وَأَوْلَادًا وَمَا نَحْنُ بِمُعَذَّبِينَ
اور یہ بھی کہا کہ :’’ہم مال اور اولاد [٥٣] کے لحاظ سے تم سے بڑھ کر ہیں اور ہمیں کوئی عذاب نہیں دیا جائے گا۔‘‘
1- یعنی جب اللہ نے ہمیں دنیا میں مال واولاد کی کثرت سے نوازا ہے، تو قیامت بھی اگر برپا ہوئی تو ہمیں عذاب نہیں ہوگا۔ گویاانہوں نے دارآخرت کو بھی دنیا پر قیاس کیا کہ جس طرح دنیا میں کافر ومومن سب کو اللہ کی نعمتیں مل رہی ہیں، آخرت میں بھی اسی طرح ہوگا، حالانکہ آخرت تو دار الجزاء ہے، وہاں تو دنیا میں کئے گئے عملوں کی جزا ملنی ہے، اچھے عملوں کی جزا اچھی اور برے عملوں کی بری۔ جب کہ دنیا دارالامتحان ہے، یہاں اللہ تعالیٰ بطور آزمائش سب کو دنیاوی نعمتوں سے سرفراز فرماتا ہے، یا انہوں نے دنیاوی مال واسباب کی فراوانی کو رضائے الٰہی کا مظہر سمجھا، حالانکہ ایسا بھی نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو اللہ تعالیٰ اپنے فرماں بردار بندوں کو سب سے زیادہ مال واولاد سے نوازتا۔