وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا كَافَّةً لِّلنَّاسِ بَشِيرًا وَنَذِيرًا وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ
اور ہم نے آپ کو تمام لوگوں کے لئے بشارت دینے والا [٤٣] اور ڈرانے والا ہی بنا کر بھیجا ہے مگر اکثر لوگ جانتے [٤٤] نہیں۔
1- اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ایک تو نبی کریم (ﷺ) کی رسالت عامہ کا بیان فرمایا ہے کہ آپ (ﷺ) کو پوری نسل انسانیت کا ہادی اور رہنما بنا کر بھیجا گیا ہے۔ دوسرا، یہ بیان فرمایا کہ اکثر لوگ آپ (ﷺ) کی خواہش اور کوشش کے باوجود ایمان سے محروم رہیں گے۔ ان دونوں باتوں کی وضاحت اور بھی دوسرے مقامات پر فرمائی ہے۔ مثلاً آپ (ﷺ) کی رسالت کے ضمن میں فرمایا، ﴿قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا﴾ (الأعراف: 158) ﴿تَبَارَكَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَى عَبْدِهِ لِيَكُونَ لِلْعَالَمِينَ نَذِيرًا﴾ (سورة الفرقان:1) ایک حدیث میں آپ (ﷺ) نے فرمایا مجھے پانچ چیزیں ایسی دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئیں۔ 1۔ مہینے کی مسافت پر دشمن کے دل میں میری دھاک بٹھانے سے میری مدد فرمائی گئی ہے۔ 2۔ تمام روئے زمین میرے لئے مسجد اور پاک ہے، جہاں بھی نماز کا وقت آجائے، میری امت وہاں نماز ادا کردے۔ 3۔ مال غنیمت میرے لئے حلال کردیا گیا، جو مجھ سے قبل کسی کے لئے حلال نہیں تھا۔ 4۔ مجھے شفاعت کا حق دیا گیا ہے۔ 5۔ پہلے نبی صرف اپنی قوم کی طرف بھیجا جاتا تھا، مجھے کائنات کے تمام انسانوں کے لئے نبی بنا کر بھیجا گیا ہے۔ (صحيح بخاری ، كتاب التيمم، صحيح مسلم، كتاب المساجد) ایک اور حدیث میں فرمایا [ بُعِثْتُ إِلَى الأَحْمَرِ وَالأَسْوَدِ ] (صحيح مسلم ، كتاب المساجد) احمر اسود سے مراد بعض نے جن وانس اور بعض نے عرب وعجم لئے ہیں۔ امام ابن کثیر فرماتے ہیں، دونوں ہی معنی صحیح ہیں۔ اسی طرح اکثریت کی بےعلمی اور گمراہی کی وضاحت فرمائی۔ ﴿وَمَا أَكْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِينَ﴾ (سورة يوسف: 103) ”آپ (ﷺ) کی خواہش کے باوجود اکثر لوگ ایمان نہیں لائیں گے“ ﴿وَإِنْ تُطِعْ أَكْثَرَ مَنْ فِي الأَرْضِ يُضِلُّوكَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ﴾ (سورة الأنعام: 116) ”اگر آپ اہل زمین کی اکثریت کے پیچھے چلیں گے تو وہ آپ کو گمراہ کردیں گے“ جس کا مطلب یہی ہوا کہ اکثریت گمراہوں کی ہے۔