وَلَا تَنفَعُ الشَّفَاعَةُ عِندَهُ إِلَّا لِمَنْ أَذِنَ لَهُ ۚ حَتَّىٰ إِذَا فُزِّعَ عَن قُلُوبِهِمْ قَالُوا مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ ۖ قَالُوا الْحَقَّ ۖ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ
اس کے ہاں صرف اس کی سفارش فائدہ دے سکتی ہے جس کے لئے وہ خود اجازت دے [٣٧]۔ حتیٰ کہ جب لوگوں کے دلوں سے گھبراہٹ دور ہوگی تو وہ پوچھیں گے کہ ’’تمہارے [٣٨] پروردگار نے کیا جواب دیا ؟‘‘ وہ کہیں گے کہ ٹھیک جواب ملا ہے۔ اور وہ عالی شان اور سب سے بڑا ہے۔
1- (جن کے لئے اجازت ہوجائے) کا مطلب ہے انبیا اور ملائکہ وغیرہ یعنی یہی سفارش کرسکیں گے، کوئی اور نہیں۔ اس لئے کہ کسی اور کی سفارش فائدے مند ہی ہوگی، نہ انہیں اجازت ہی ہوگی۔ دوسرا مطلب ہے، مستحقین شفاعت۔ یعنی انبیا علیہم السلام وملائکہ اور صالحین صرف ان ہی کے حق میں سفارش کرسکیں گے جو مستحقین شفاعت ہوں گے کیوں کہ اللہ کی طرف سے ان ہی کے حق میں سفارش کرنے کی اجازت ہوگی، کسی اور کے لئے نہیں۔ (فتح القدیر) مطلب یہ ہوا کہ انبیا علیہم السلام، ملائکہ اور صالحین کے علاوہ وہاں کوئی سفارش نہیں کرسکے گا اور یہ حضرات بھی سفارش اہل ایمان گناہ گاروں کے لئے ہی کرسکیں گے، کافر ومشرک اور اللہ کے باغیوں کے لئے نہیں۔ قرآن کریم نے دوسرے مقام پر ان دونوں نکتوں کی وضاحت فرما دی ہے۔ ﴿مَنْ ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَهُ إِلا بِإِذْنِهِ﴾ (البقرة: 255) اور ﴿وَلا يَشْفَعُونَ إِلا لِمَنِ ارْتَضَى﴾ (الأنبياء: 28)۔ 2- اس کی مختلف تفسیریں کی گئی ہیں ۔ابن جریر اور ابن کثیر نے حدیث کے روشنی میں اس کی یہ تفسیر بیان کی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی امر کی بابت کلام (وحی) فرماتا ہے تو آسمان پر موجود فرشتے ہیبت اور خوف سے کانپ اٹھتے ہیں اور ان پر بے ہوشی کی سی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ ہوش آنے پر وہ پوچھتے ہیں تو عرش بردار فرشتے دوسرے فرشتوں کو اور وہ اپنے سے نیچے والے فرشتوں کو بتلاتے ہیں اور اس طرح خبر پہلے آسمان کے فرشتوں تک پہنچ جاتی ہے ۔(ابن کثیر) فزع میں سلب ماخذ ہے یعنی جب گبراہٹ دور کر دی جاتی ہے۔