وَجَعَلْنَا بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ الْقُرَى الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا قُرًى ظَاهِرَةً وَقَدَّرْنَا فِيهَا السَّيْرَ ۖ سِيرُوا فِيهَا لَيَالِيَ وَأَيَّامًا آمِنِينَ
ہم نے ان کی بستی اور اس بستی کے درمیان جس میں ہم نے برکت رکھی تھی، کھلے راستہ پر کئی بستیاں آباد کردی تھیں اور ان میں چلنے کی منزلیں مقرر کردی تھیں کہ ان میں رات دن بلاخوف و خطر امن سے [٢٩] سفر کرو۔
1- برکت والی بستیوں سے مراد شام کی بستیاں ہیں۔ یعنی ہم نے ملک سبا (یمن) اور شام کے درمیان لب سڑک بستیاں آباد کی ہوئی تھیں، بعض نے ظَاهِرَةً کے معنی مُتَوَاصِلَةً، ایک دوسرے سے پیوست اور مسلسل کے کئے ہیں۔ مفسرین نے ان بستیوں کی تعداد 4 ہزار سات سو بتلائی ہے۔ یہ ان کی تجارتی شاہراہ تھی جو مسلسل آباد تھی، جس کی وجہ سے ایک تو ان کے کھانے پینے اور آرام کرنے کے لئے زاد راہ ساتھ لینے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ دوسرے، ویرانی کی وجہ سے لوٹ مار اور قتل وغارت کا جو اندیشہ ہوتا ہے، وہ نہیں ہوتا تھا۔ 2- یعنی ایک آبادی سے دوسری آبادی کا فاصلہ متعین اور معلوم تھا، اور اس کے حساب سے وہ بہ آسانی اپنا سفر طے کرلیتے تھے۔ مثلاً صبح سفر کا آغاز کرتے تو دوپہر تک کسی آبادی اور قریے تک پہنچ جاتے، وہاں کھا پی کر قیلولہ کرتے اور پھر سرگرم سفر ہوجاتے تو رات کو کسی آبادی میں جاپہنچتے۔ 3- یہ ہر قسم کے خطرے سے محفوظ اور زاد راہ کی مشقت سے بےنیاز ہونے کا بیان ہے کہ رات اور دن کی جس گھڑی میں تم سفر کرنا چاہو، کرو، نہ جان ومال کا کوئی اندیشہ نہ راستے کے لئے سامان سفر ساتھ لینے کی ضرورت۔