يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ آذَوْا مُوسَىٰ فَبَرَّأَهُ اللَّهُ مِمَّا قَالُوا ۚ وَكَانَ عِندَ اللَّهِ وَجِيهًا
اے ایمان والو! ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جنہوں [١٠٧] نے موسیٰ کو اذیت پہنچائی تھی۔ پھر اللہ نے موسیٰ کو ان کی بنائی ہوئی باتوں سے بری کردیا اور وہ اللہ کے ہاں بڑی عزت [١٠٨] والے تھے۔
1- اس کی تفسیر حدیث میں اس طرح آئی ہے کہ حضرت موسیٰ (عليہ السلام) نہایت باحیا تھے، چنانچہ اپنا جسم انہوں نے کبھی لوگوں کے سامنے ننگا نہیں کیا۔ بنی اسرائیل کہنے لگے کہ شاید موسیٰ (عليہ السلام) کے جسم میں برص کے داغ یا کوئی اس قسم کی آفت ہے جس کی وجہ سے یہ ہر وقت لباس میں ڈھکا چھپا رہتا ہے۔ ایک مرتبہ حضرت موسیٰ (عليہ السلام) تنہائی میں غسل کرنے لگے، کپڑے اتار کر ایک پتھر پر رکھ دیئے، پتھر (اللہ کے حکم سے) کپڑے لے کر بھاگ کھڑا ہوا۔ حضرت موسی (عليہ السلام) اس کے پیچھے پیچھے دوڑے، حتیٰ کہ بنی اسرائیل کی ایک مجلس میں پہنچ گئے، انہوں نے حضرت موسیٰ (عليہ السلام) کو ننگا دیکھا تو ان کے سارے شبہات دور ہوگئے۔ موسیٰ (عليہ السلام) نہایت حسین وجمیل اور ہر قسم کے داغ اور عیب سے پاک تھے۔ یوں اللہ تبارک وتعالیٰ نے معجزانہ طور پر پتھر کے ذریعے سے ان کی اس الزام اور شبہے سے براءت کردی جو بنی اسرائیل کی طرف سے ان پر کیا جاتا تھا (صحيح بخاری كتاب الأنبياء) حضرت موسیٰ (عليہ السلام) کے حوالے سے اہل ایمان کو سمجھایا جا رہا ہے کہ تم ہمارے پیغمبر آخر الزمان حضرت محمد (ﷺ) کو بنی اسرائیل کی طرح ایذا مت پہنچاؤ اور آپ (ﷺ) کی بابت ایسی بات مت کرو جسے سن کر آپ (ﷺ) قلق اور اضطراب محسوس کریں، جیسے ایک موقعے پر مال غنیمت کی تقسیم میں ایک شخص نے کہا کہ اس میں عدل وانصاف سے کام نہیں لیا گیا۔ جب آپ (ﷺ) تک یہ الفاظ پہنچے تو غضب ناک ہوئے حتیٰ کہ آپ (ﷺ) کا چہرۂ مبارک سرخ ہوگیا آپ (ﷺ) نے فرمایا ”موسیٰ (عليہ السلام) پر اللہ کی رحمت ہو، انہیں اس سے کہیں زیادہ ایذا پہنچائی گئی، لیکن انہوں نے صبر کیا“۔ (بخاری كتاب الأنبياء، مسلم، كتاب الزكاة، باب إعطاء المؤلفة قلوبهم على الإسلام..)۔