يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ إِلَّا أَن يُؤْذَنَ لَكُمْ إِلَىٰ طَعَامٍ غَيْرَ نَاظِرِينَ إِنَاهُ وَلَٰكِنْ إِذَا دُعِيتُمْ فَادْخُلُوا فَإِذَا طَعِمْتُمْ فَانتَشِرُوا وَلَا مُسْتَأْنِسِينَ لِحَدِيثٍ ۚ إِنَّ ذَٰلِكُمْ كَانَ يُؤْذِي النَّبِيَّ فَيَسْتَحْيِي مِنكُمْ ۖ وَاللَّهُ لَا يَسْتَحْيِي مِنَ الْحَقِّ ۚ وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوهُنَّ مِن وَرَاءِ حِجَابٍ ۚ ذَٰلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِنَّ ۚ وَمَا كَانَ لَكُمْ أَن تُؤْذُوا رَسُولَ اللَّهِ وَلَا أَن تَنكِحُوا أَزْوَاجَهُ مِن بَعْدِهِ أَبَدًا ۚ إِنَّ ذَٰلِكُمْ كَانَ عِندَ اللَّهِ عَظِيمًا
اے ایمان والو! نبی کے گھروں [٨٦] میں نہ جایا کرو الا یہ کہ تمہیں اجازت دی جائے اور کھانے کی تیاری کا انتظار [٨٧] نہ کرنے لگو۔ البتہ جب تمہیں (کھانے پر) بلایا جائے تو آؤ اور جب کھا چکو تو چلے جاؤ اور باتوں [٨٨] میں دل لگائے وہیں نہ بیٹھے رہو۔ تمہاری یہ بات نبی کے لئے تکلیف دہ تھی مگر تم سے شرم کی وجہ سے کچھ نہ کہتے تھے اور اللہ حق بات کہنے سے نہیں شرماتا اور جب تمہیں ازواج نبی سے کوئی چیز [٨٩] مانگنا ہو تو پردہ کے پیچھے رہ کر مانگو۔ یہ بات تمہارے دلوں کے لئے بھی پاکیزہ تر ہے اور ان کے دلوں [٩٠] کے لئے بھی۔ تمہارے لئے یہ جائز نہیں کہ تم اللہ کے رسول [٩١] کو ایذا دو اور نہ یہ جائز ہے کہ اس (کی وفات) کے بعد کبھی اس کی بیویوں [٩٢] سے نکاح کرو۔ بلاشبہ اللہ کے ہاں یہ بڑے گناہ کی بات ہے۔
1- اس آیت کا سبب نزول یہ ہے کہ نبی کریم (ﷺ) کی دعوت پر حضرت زینب (رضی الله عنہا) کے ولیمے میں صحابہ کرام (رضی الله عنہم) تشریف لائے جن میں سے بعض کھانے کے بعد بیٹھے ہوئے باتیں کرتے رہے جس سے آپ (ﷺ) کو خاص تکلیف ہوئی، تاہم حیا واخلاق کی وجہ سے آپ (ﷺ) نے انہیں جانے کے لئے کہا نہیں۔ (صحيح بخاری، تفسير سورة الأحزاب) چنانچہ اس آیت میں دعوت کے آداب بتلا دیئے گئے کہ ایک تو اس وقت جاؤ، جب کھانا تیار ہوچکا ہو، پہلے سے ہی جا کر دھرنا مار کر نہ بیٹھ جاؤ۔ دوسرا، کھاتے ہی اپنے اپنے گھروں کو چلے جاؤ، وہاں بیٹھے ہوئے باتیں مت کرتے رہو، کھانے کا ذکر تو سبب نزول کی وجہ سے ہے، ورنہ مطلب یہ ہے کہ جب بھی تمہیں بلایا جائے چاہے کھانے کے لئے یا کسی اور کام کے لئے، اجازت کے بغیر گھر کے اندر داخل مت ہو۔ 2- یہ حکم حضرت عمر (رضی الله عنہ) کی خواہش پر نازل ہوا۔ حضرت عمر (رضی الله عنہ) نے نبی کریم (ﷺ) سے عرض کیا، یا رسول اللہ (ﷺ)! آپ کے پاس اچھے برے ہر طرح کے لوگ آتے ہیں، کاش آپ امہات المومنین کو پردے کا حکم دیں تو کیا اچھا ہو۔ جس پر اللہ نے یہ حکم نازل فرما دیا۔ (صحيح بخاری ، كتاب الصلاة ، وتفسير سورة البقرة، مسلم باب فضائل عمر بن الخطاب)۔ 3- یہ پردے کی حکمت اور علت ہے کہ اس سے مرد اور عورت دونوں کے دل ریب وشک سے اور ایک دوسرے کے ساتھ فتنے میں مبتلا ہونے سے محفوظ رہیں گے۔ 4- چاہے وہ کسی بھی لحاظ سے ہو۔ آپ (ﷺ) کے گھر میں بغیر اجازت داخل ہونا، آپ (ﷺ) کی خواہش کے بغیر گھر میں بیٹھے رہنا اور بغیر حجاب کے ازواج مطہرات سے گفتگو کرنا، یہ امور بھی ایذا کے باعث ہیں، ان سے بھی اجتناب کرو۔ 5- یہ حکم ان ازواج مطہرات کے بارے میں ہے جو وفات کے وقت نبی کریم (ﷺ) کے حبالۂ عقد میں تھیں۔ تاہم جن کو آپ (ﷺ) نے ہم بستری کے بعد زندگی میں طلاق دے کر اپنے سےعلیحدہ کردیا ہو، وہ اس کے عموم میں داخل ہیں یا نہیں؟ اس میں دو رائے ہیں۔ بعض ان کو بھی شامل سمجھتے ہیں اور بعض نہیں۔ لیکن آپ (ﷺ) کی ایسی کوئی بیوی تھی ہی نہیں۔ اس لئے یہ محض ایک فرضی شکل ہے۔ علاوہ ازیں ایک تیسری قسم ان عورتوں کی ہے جن سے آپ (ﷺ) نکاح ہوا لیکن ہم بستری سے قبل ہی ان کو آپ (ﷺ) نے طلاق دے دی۔ ان سے دوسرے لوگوں کا نکاح درست ہونے میں کوئی نزاع معلوم نہیں۔ (تفسیر ابن کثیر)