وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَىٰ ۖ وَأَقِمْنَ الصَّلَاةَ وَآتِينَ الزَّكَاةَ وَأَطِعْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ ۚ إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا
اور اپنے گھروں میں قرار [٤٧] پکڑے رہو، پہلے دور جاہلیت [٤٨] کی طرح اپنی زیب و زینت کی نمائش [٤٩] نہ کرتی پھرو، نماز قائم کرو، زکوٰۃ ادا کرو ' اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔ اے اہل بیت [٥٠] (نبی) اللہ تو یہ چاہتا ہے کہ تم سے ناپاکی [٥١] کو دور کرکے اچھی طرح پاک صاف بنا دے
1- یعنی ٹک کر رہو اور بغیر ضروری حاجت کے گھر سے باہر نہ نکلو۔ اس میں وضاحت کردی گئی ہے کہ عورت کا دائرہ عمل امور سیاست وجہاں بانی نہیں، معاشی جھمیلے بھی نہیں، بلکہ گھر کی چاردیواری کے اندر رہ کر امور خانہ داری سرانجام دینا ہے۔ 2- اس میں گھر سے باہر نکلنے کے آداب بتلا دیئے کہ اگر باہر جانے کی ضرورت پیش آئے تو بناؤ سنگھار کرکے یا ایسے انداز سے، جس سے تمہارا بناؤ سنگھار ظاہر ہو، مت نکلو۔ جیسے بےپردہ ہو کر، جس سے تمہارا سر، چہرہ، بازو اور چھاتی وغیرہ لوگوں کو دعوت نظارہ دے۔ بلکہ بغیر خوشبو لگائے، سادہ لباس میں ملبوس اور باپردہ باہر نکلو تَبَرُّجٌ بےپردگی اور زیب وزینت کے اظہار کو کہتے ہیں۔ قرآن نے واضح کردیا ہے کہ یہ تبرج، جاہلیت ہے، جو اسلام سے پہلے تھی اور آئندہ بھی، جب کبھی اسے اختیار کیا جائے گا، یہ جاہلیت ہی ہوگی، اسلام سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے، چاہے اس کا نام کتنا ہی خوش نما، دل فریب رکھ لیا جائے۔ 3- پچھلی ہدایات، برائی سے اجتناب سے متعلق تھیں، یہ ہدایات نیکی اختیار کرنے سے متعلق ہیں۔ 4- اہل بیت سے کون مراد ہیں؟ اس کی تعیین میں کچھ اختلاف ہے۔ بعض نے ازواج مطہرات کو مراد لیا ہے، جیسا کہ یہاں قرآن کریم کے سیاق سے واضح ہے۔ قرآن نے یہاں ازواج مطہرات ہی کو اہل البیت کہا ہے۔ قرآن کے دوسرے مقامات پر بھی بیوی کو اہل بیت کہا گیا ہے۔ مثلاً سورۂ ھود، آیت 73 میں۔ اس لئے ازواج مطہرات کا اہل بیت ہونا نص قرآنی سے واضح ہے۔ بعض حضرات، بعض روایات کی رو سے اہل بیت کا مصداق صرف حضرت علی، حضرت فاطمہ اور حضرت حسن وحسین (رضی الله عنہم) کو مانتے ہیں اور ازواج مطہرات کو اس سے خارج سمجھتے ہیں، جب کہ اول الذکر، ان اصحاب اربعہ کو اس سے خارج سمجھتے ہیں۔ تاہم اعتدال کی راہ اور نقطہ متوسط یہ ہے کہ دونوں ہی اہل بیت ہیں۔ ازواج مطہرات تو اس نص قرانی کی وجہ سے اور داماد واولاد ان روایات کی رو سے جو صحیح سند سے ثابت ہیں جن میں نبی کریم (ﷺ) نے ان کو اپنی چادر میں لے کر فرمایا کہ اے اللہ یہ میرے اہل بیت ہیں، جس کا مطلب یہ ہوگا کہ یہ بھی میرے اہل بیت سے ہیں یا یہ دعا ہے کہ یا اللہ ان کوبھی ازواج مطہرات کی طرح، میرے اہل بیت میں شامل فرما دے۔ اس طرح یہ تمام دلائل میں بھی تطبیق ہوجاتی ہے۔ (مزید تفصیل کے لئے دیکھئے فتح القدیر، للشوکانی)۔