لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا
(مسلمانو!) تمہارے لیے اللہ کے رسول (کی ذات) میں بہترین نمونہ [٢٩] ہے، جو بھی اللہ اور یوم آخرت کی امید رکھتا ہو [٣٠] اور اللہ کو بکثرت یاد کرتا ہو۔
1- یعنی اے مسلمانو ! اور منافقو ! تم سب کے لئے رسول اللہ (ﷺ) کی ذات کے اندر بہترین نمونہ ہے، پس تم جہاد میں اور صبر وثبات میں اسی کی پیروی کرو۔ ہمارا یہ پیغمبر جہاد میں بھوکا رہا حتیٰ کہ اسے پیٹ پر پتھر باندھنے پڑے، اس کا چہرہ زخمی ہو گیا، اس کا رباعی دانت ٹوٹ گیا، خندق اپنے ہاتھوں سے کھودی اور تقریباً ایک مہینہ دشمن کے سامنے سینہ سپر رہا۔ یہ آیت اگرچہ جنگ احزاب کے ضمن میں نازل ہوئی ہے جس میں جنگ کے موقعے پر بطور خاص رسول اللہ (ﷺ) کے اسوۂ حسنہ کو سامنے رکھنے اور اس کی اقتدا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ لیکن یہ حکم عام ہے یعنی آپ (ﷺ) کے تمام اقوال، افعال اور احوال میں مسلمانوں کے لئے آپ (ﷺ) کی اقتدا ضروری ہے چاہے ان کا تعلق عبادات سے ہو یا معاشرت سے، معیشت سے، یا سیاست سے، زندگی کے ہر شعبے میں آپ کی ہدایات واجب الاتباع ہیں ﴿وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ﴾ الآية (الحشر) اور﴿إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ﴾ الآية (آل عمران: 31) کا مفاد بھی یہی ہے۔ 2- اس سے یہ واضح ہوگیا کہ اسوۂ رسول (ﷺ) کو وہی اپنائے گا جو آخرت میں اللہ کی ملاقات پر یقین رکھتا اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرتا ہے۔ آج مسلمان بھی بالعموم ان دونوں وصفوں سے محروم ہیں، اس لئے اسوۂ رسول (ﷺ) کی بھی کوئی اہمیت ان کے دلوں میں نہیں ہے۔ ان میں جو اہل دین ہیں ان کے پیشوا، پیر اور مشائخ ہیں اور جو اہل دنیا واہل سیاست ہیں ان کے مرشد ورہنما آقایان مغرب ہیں۔ رسول اللہ (ﷺ) سےعقیدت کے زبانی دعوے بڑے ہیں، لیکن آپ (ﷺ) کو مرشد اور پیشوا ماننے کے لئے ان میں سے کوئی بھی آمادہ نہیں ہے۔ فَإِلَى اللهِ الْمُشْتَكَى۔