وَلَا تُصَعِّرْ خَدَّكَ لِلنَّاسِ وَلَا تَمْشِ فِي الْأَرْضِ مَرَحًا ۖ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ
اور (از راہ تکبر) لوگوں سے اپنے گال نہ پھلانا، نہ ہی زمین میں اکڑ کر چلنا (کیونکہ) اللہ کسی خود پسند [٢٤] اور شیخی خور کو پسند نہیں کرتا
* یعنی تکبر نہ کر کہ لوگوں کو حقیر سمجھے اور جب وہ تجھ سے ہم کلام ہوں تو تو ان سے منہ پھیر لے۔ یا گفتگو کے وقت اپنا منہ پھیرے رکھے۔ صعر ایک بیماری ہے جو اونٹ کے سریا گردن میں ہوتی ہے۔ جس سےاس کی گردن مڑ جاتی ہے۔ یہاں بطور تکبر منہ پھیر لینے کے معنی میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے۔ (ابن کثیر)۔ ** یعنی ایسی چال یا رویہ، جس سے مال ودولت یا جاہ ومنصب یا قوت وطاقت کی وجہ سے فخر وغرور کا اظہار ہوتا ہو، یہ اللہ کو ناپسند ہے، اس لئے کہ انسان ایک بندۂ عاجز وحقیر ہے، اللہ تعالیٰ کو یہی پسند ہے کہ وہ اپنی حیثیت کے مطابق عاجزی وانکساری ہی اختیار کیے رکھے اس سےتجاوز کرکے بڑائی کا اظہار نہ کرے کہ بڑائی صرف اللہ ہی کےلئے زیبا ہے جو تمام اختیارات کا مالک اور تمام خوبیوں کا منبع ہے۔ اسی لئے حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ ”وہ شخص جنت میں نہیں جائے گا، جس کے دل میں ایک رائی کے دانے کے برابر بھی کبر ہوگا“۔ (مسند أحمد: 1/412، ترمذی، أبواب البر، ما جاء في الكبر) ”جو تکبر کے طور پر اپنے کپڑے کو کھینچتے (گھسیٹتے) ہوئے چلے گا، اللہ اس کی طرف (قیامت والے دن) نہیں دیکھے گا“ ۔(مسند أحمد 5 / 9، 10 وانظر البخاری، كتاب اللباس) تاہم تکبر کا اظہار کیے بغیر اللہ کے انعامات کا ذکر یا اچھا لباس اور خوراک وغیرہ کا استعمال جائز ہے۔