يَا بُنَيَّ أَقِمِ الصَّلَاةَ وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنكَرِ وَاصْبِرْ عَلَىٰ مَا أَصَابَكَ ۖ إِنَّ ذَٰلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ
پیارے بیٹے! نماز قائم کرو، نیکی کا حکم کرو اور برے کام سے منع کرو اگر تجھے کوئی تکلیف پہنچے تو اس پر صبر کرو [٢٣]۔ بلاشبہ یہ سب باتیں بڑی ہمت کے کام ہیں
* إِقَامَةُ صَلاةٍ، أَمْرٌ بِالْمَعْرُوفِ، نَهْيٌ عَنْ الْمُنْكَرِ اور مصائب پر صبر کا اس لئے ذکر کیا کہ یہ تینوں اہم ترین عبادات اور امور خیر کی بنیاد ہیں۔ ** یعنی مذکورہ باتیں ان کاموں میں سے ہیں جن کی اللہ تعالیٰ نے تاکید فرمائی ہے اور بندوں پر انہیں فرض قرار دیا ہے۔ یا یہ ترغیب ہے عزم وہمت پیدا کرنے کی کیونکہ عزم وہمت کے بغیر طاعات مذکورہ پر عمل ممکن نہیں۔ بعض مفسرین کے نزدیک ذلک کا مرجع صبر ہے۔ اس سے پہلے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی وصیت ہے اور اس راہ میں شدائد ومصائب اور طعن وملامت ناگزیر ہے، اس لئے اس کے فوراً بعد صبر کی تلقین کرکے واضح کر دیا کہ صبر کا دامن تھامے رکھنا کہ یہ عزم وہمت کے کاموں میں سے ہےاور اہل عزم وہمت کا ایک بڑا ہتھیار ہے۔ اس کے بغیر فریضۂ تبلیغ کی ادائیگی ممکن نہیں۔