يَا بُنَيَّ إِنَّهَا إِن تَكُ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ فَتَكُن فِي صَخْرَةٍ أَوْ فِي السَّمَاوَاتِ أَوْ فِي الْأَرْضِ يَأْتِ بِهَا اللَّهُ ۚ إِنَّ اللَّهَ لَطِيفٌ خَبِيرٌ
پیارے بیٹے! اگر (تیرا عمل) رائی کے دانہ کے برابر بھی ہو وہ خواہ کسی چٹان میں ہو یا آسمانوں میں ہو یا زمین میں، اللہ اسے [٢٢] نکال لائے گا۔ اللہ یقیناً باریک بین اور باخبر ہے
1- إِنْ تَكُ کا مرجع خَطِيئَةٌ ہو تو مطلب گناہ اور اللہ کی نافرمانی والا کام ہے اور اگر اس کا مرجع خَصْلَةٌ ہو تو مطلب اچھائی یا برائی کی خصلت ہوگا۔ مطلب یہ ہے کہ انسان اچھا یا برا کام کتنا بھی چھپ کر کرے، اللہ سے مخفی نہیں رہ سکتا، قیامت والے دن اللہ تعالیٰ اسے حاضر کر لے گا۔ یعنی اس کی جزا دے گا، اچھے عمل کی اچھی جزا، برے عمل کی بری جزا۔ رائی کے دانے کی مثال اس لئے دی کہ وہ اتنا چھوٹا ہوتا ہے کہ جس کا وزن محسوس ہوتا ہے نہ تول میں وہ ترازو کے پلڑے کو جھکا سکتا ہے۔ اسی طرح چٹان (آبادی سے دور جنگل، پہاڑ میں) مخفی ترین اور محفوظ ترین جگہ ہے۔ یہ مضمون حدیث میں بھی بیان کیا گیا ہے۔ فرمایا ”اگر تم میں سے کوئی شخص بے سوراخ کے پتھر میں بھی عمل کرے گا، جس کا کوئی دروازہ ہو نہ کھڑکی، اللہ تعالیٰ اسے لوگوں پر ظاہر فرما دے گا، چاہے وہ کیسا ہی عمل ہو“۔ (مسند احمد / 281) اس لئے کہ وہ لطیف (باریک بین) ہے، اس کا علم مخفی ترین چیز تک محیط ہے، اور خبیر ہے، اندھیری رات میں چلنے والی چیونٹی کی حرکات وسکنات سے بھی وہ باخبر ہے۔