سورة الروم - آیت 30

فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا ۚ فِطْرَتَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا ۚ لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ ۚ ذَٰلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ

ترجمہ تیسیرالقرآن - مولانا عبد الرحمن کیلانی

لہٰذا (اے نبی!) یکسو ہو کر اپنا رخ دین [٣٠] پر مرتکز کر دو۔ یہی فطرت الٰہی [٣١] ہے جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے۔ اللہ کی اس خلقت [٣٢] میں کوئی ردوبدل نہیں ہوسکتا یہی درست دین [٣٣] ہے۔ لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔

تفسیر مکہ - حافظ صلاح الدین یوسف حافظ

* یعنی اللہ کی توحید اور اس کی عبادت پر قائم رہیں اور ادیان باطلہ کی طرف التفات ہی نہ کریں۔ ** فطرت کےاصل معنی خلقت (پیدائش) کے ہیں۔ یہاں مراد ملت اسلام (وتوحید) ہے مطلب یہ ہے کہ سب کی پیدائش، بغیر مسلم وکافر کی تفریق کے، اسلام اور توحید پر ہوتی ہے، اس لئے توحید ان کی فطرت یعنی جبلت میں شامل ہے جس طرح کہ عہدالست سےواضح ہے۔ بعد میں بہت سوں کو ماحول یادیگر عوارض، فطرت کی اس آواز کی طرف نہیں آنے دیتے، جس کی وجہ سےوہ کفر پر ہی باقی رہتے ہیں جس طرح نبی (ﷺ) کی حدیث ہے ”ہربچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے، لیکن پھر اس کے ماں باپ، اس کو یہودی، عیسائی اور مجوسی وغیرہ بنا دیتے ہیں“۔ (صحيح بخاری، تفسير سورة الروم، مسلم كتاب القدر ، باب معنى كل مولود يولد على الفطرة *** یعنی اللہ کی اس خلقت (فطرت) کو تبدیل نہ کرو بلکہ صحیح تربیت کےذریعےسےاس کی نشوونما کرو تاکہ ایمان وتوحید بچوں کے دل ودماغ میں راسخ ہوجائے۔ یہ خبربمعنی انشا ہے یعنی نفی، نہی کے معنی میں ہے۔ **** یعنی وہ دین جس کی طرف یکسو اور متوجہ ہونے کا حکم ہے، یا جو فطرت کا تقاضا ہے وہ یہی دین قیم ہے۔ ***** اسی لئے وہ اسلام اور توحید سے ناآشنا رہتے ہیں۔