وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ۖ فَلَيَعْلَمَنَّ اللَّهُ الَّذِينَ صَدَقُوا وَلَيَعْلَمَنَّ الْكَاذِبِينَ
حالانکہ ہم نے ان لوگوں کو آزمایا تھا جو ان سے پہلے گزر چکے [٢] ہیں۔ اللہ تعالیٰ ضرور یہ معلوم [٣] کرنا چاہتا ہے کہ ان میں سے سچے کون ہیں اور جھوٹے کون
1- یعنی یہ سنت الٰہی ہے جو پہلے سے چلی آرہی ہے۔ اس لیے وہ اس امت کے مومنوں کی بھی آزمائش کرے گا، جس طرح پہلی امتوں کی آزمائش کی گئی۔ ان آیات کی شان نزول کی روایات میں آتا ہے کہ صحابہ کرام (رضی الله عنہم) نے اس ظلم وستم کی شکایت کی جس کا نشانہ وہ کفار مکہ کی طرف سے بنے ہوئے تھے اور رسول اللہ (ﷺ) سے دعا کی درخواست کی تاکہ اللہ تعالیٰ ان کی مدد فرمائے۔ آپ (ﷺ) نے فرمایا کہ یہ تشدد وایذا تو اہل ایمان کی تاریخ کا حصہ ہے۔ تم سے پہلے بعض مومنوں کا یہ حال کیا گیا کہ انہیں ایک گڑھا کھود کر اس میں کھڑا کر دیا گیا اور پھر ان کے سروں پر آرا چلا دیا گیا، جس سے ان کے جسم دو حصوں میں تقسیم ہوگئے، اسی طرح لوہے کی کنگھیاں ان کے گوشت پر ہڈیوں تک پھیری گئیں۔ لیکن یہ ایذائیں انہیں دین حق سے پھیرنے میں کامیاب نہیں ہوئیں۔ (صحيح بخاری، كتاب أحاديث الأنبياء، باب علامات النبوة في الإسلام) حضرت عمار، ان کی والدہ حضرت سمیہ اور والد حضرت یاسر، حضرت صہیب، بلال ومقداد وغیرہم رضوان اللہ علیہم اجمعین پر اسلام کے ابتدائی دور میں جو ظلم وستم کے پہاڑ توڑے گئے، وہ صفحات تاریخ میں محفوظ ہیں۔ یہ واقعات ہی ان آیات کے نزول کا سبب بنے۔ تاہم عموم الفاظ کے اعتبار سے قیامت تک کے اہل ایمان اس میں داخل ہیں۔