إِنَّ الَّذِي فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لَرَادُّكَ إِلَىٰ مَعَادٍ ۚ قُل رَّبِّي أَعْلَمُ مَن جَاءَ بِالْهُدَىٰ وَمَنْ هُوَ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ
اے نبی! بلاشبہ جس (اللہ) نے آپ پر قرآن (پر عمل اور اس کی تبلیغ) [١١٥] فرض کیا ہے وہ آپ کو (بہترین) [١١٦] انجام کو پہنچانے والا ہے۔ آپ ان (کافروں) سے کہئے کہ : میرا پروردگار خوب جانتا ہے کہ کون ہدایت [١١٧] لے کر آیا ہے اور کون واضح گمراہی میں پڑا ہے۔
1- یا اس کی تلاوت اور اس کی تبلیغ ودعوت آپ پر فرض کی ہے۔ 2- یعنی آپ کے مولد مکہ ، جہاں سے آپ نکلنے پر مجبور کر دیئے گئے تھے۔ حضرت ابن عباس (رضی الله عنہ) سے صحیح بخاری میں اس کی یہی تفسیر نقل ہوئی ہے۔ چنانچہ ہجرت کے آٹھ سال بعد اللہ کا یہ وعدہ پورا ہوگیا اور آپ 8 ہجری میں فاتحانہ طور پر مکے میں دوبارہ تشریف لے گئے۔ بعض نے معاد سے مراد قیامت لی ہے۔ یعنی قیامت والے دن آپ کو اپنی طرف لوٹائے گا اور تبلیغ رسالت کے بارے میں پوچھے گا۔ 3- یہ مشرکین کے اس جواب میں ہے جو وہ نبی (ﷺ) کو ان کے آبائی اور روایتی مذہب سے انحراف کی بنا پر گمراہ سمجھتے تھے۔ فرمایا میرا رب خوب جانتا ہے کہ گمراہ میں ہوں، جو اللہ کی طرف سے ہدایت لے کر آیا ہوں یا تم ہو، جو اللہ کی طرف سے آئی ہوئی ہدایت کو قبول نہیں کر رہے ہو؟