وَيَوْمَ يُنَادِيهِمْ فَيَقُولُ مَاذَا أَجَبْتُمُ الْمُرْسَلِينَ
اور جس دن اللہ تعالیٰ انھیں پکارے گا اور پوچھے گا کہ: ’’تم نے رسولوں کو کیا جواب دیا تھا ؟‘‘[٨٩]
1- اس سے پہلے کی آیات میں توحید سے متعلق سوال تھا، یہ ندائے ثانی رسالت کے بارے میں ہے، یعنی تمہاری طرف ہم نے رسول بھیجے تھے، تم نے ان کے ساتھ کیا معاملہ کیا، ان کی دعوت قبول کی تھی؟ جس طرح قبر میں سوال ہوتا ہے، تیرا پیغمبر کون ہے؟ اور تیرا دین کون سا ہے؟ مومن تو صحیح جواب دے دیتا ہے۔ لیکن کافر کہتا ہے هَاهْ هَاهْ لا أَدْرِي مجھے تو کچھ معلوم نہیں، اسی طرح قیامت والے دن انہیں اس سوال کا کوئی جواب نہیں سوجھے گا۔ اسی لیے آگے فرمایا ”ان پر تمام خبریں اندھی ہو جائیں گی“۔ یعنی کوئی دلیل ان کی سمجھ میں نہیں آئے گی جسے وہ پیش کرسکیں۔ یہاں دلائل کو اخبار سے تعبیر کرکے اس طرف اشارہ فرما دیا کہ ان کے باطل عقائد کے لیے حقیقت میں ان کے پاس کوئی دلیل ہے ہی نہیں، صرف قصص وحکایات ہیں۔ جیسے آج بھی قبر پرستوں کے پاس من گھڑت کراماتی قصوں کے سوا کچھ نہیں۔