قَالَ الَّذِينَ حَقَّ عَلَيْهِمُ الْقَوْلُ رَبَّنَا هَٰؤُلَاءِ الَّذِينَ أَغْوَيْنَا أَغْوَيْنَاهُمْ كَمَا غَوَيْنَا ۖ تَبَرَّأْنَا إِلَيْكَ ۖ مَا كَانُوا إِيَّانَا يَعْبُدُونَ
اور وہ لوگ اللہ کے مزعومہ شریک) جن پر عذاب کی بات واجب [٨٦] ہوجائے گی : پروردگار! ہم نے ان لوگوں (اپے پیروؤں) کو گمراہ کیا تھا (اور) انھیں ایسے ہی گمراہ کیا جیسے ہم خود ہی گمراہ تھے۔ اب ہم آپ کے سامنے ان سے برات کا اظہار کرتے ہیں۔ انہوں نے ہمارے عبادت [٨٧] نہیں کی تھی۔
1- یعنی جو عذاب الٰہی کے مستحق قرار پا چکے ہوں گے، مثلاً سرکش شیاطین اور داعیان کفروشرک وغیرہ، وہ کہیں گے۔ 2- یہ ان جاہل عوام کی طرف اشارہ ہے جن کو داعیان کفر وضلال نے اور شیاطین نے گمراہ کیا تھا۔ 3- یعنی ہم تو تھے ہی گمراہ لیکن ان کو بھی اپنے ساتھ گمراہ کیے رکھا۔ مطلب یہ ہے کہ ہم نےان پر کوئی جبر نہیں کیا تھا، بس ہمارے ادنیٰ سے اشارے پر ہماری طرح ہی انھوں نے بھی گمراہی اختیار کر لی۔ 4- یعنی ہم ان سے بیزار اور الگ ہیں، ہمارا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ مطلب یہ ہے کہ وہاں یہ تابع اور متبوع، چیلے اور گرو ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے۔ 5- بلکہ درحقیقت اپنی ہی خواہشات کی پیروی کرتے تھے۔ یعنی وہ معبودین ، جن کی لوگ دنیا میں عبادت کرتے تھے، اس بات سے ہی انکار کر دیں گے کہ لوگ ان کی عبادت کرتے تھے۔ اس مضمون کو قرآن کریم میں کئی جگہ بیان کیا گیا ہے۔ مثلاً سورة الأنعام: 49 سورة مريم: 82،81 ، سورة الأحقاف: 5-6، سورة العنكبوت:25 سورة القمر: 167-166 وغيرها من الآيات۔