وَمَا كُنتَ بِجَانِبِ الطُّورِ إِذْ نَادَيْنَا وَلَٰكِن رَّحْمَةً مِّن رَّبِّكَ لِتُنذِرَ قَوْمًا مَّا أَتَاهُم مِّن نَّذِيرٍ مِّن قَبْلِكَ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ
نیز آپ طور کے کنارے پر بھی نہ تھے جب ہم نے (موسیٰ کو)[٦١] ندا کی تھی، لیکن یہ آپ کے پروردگار کی رحمت ہے (کہ اس نے آپ کو یہ سچی غیب کی خبریں دیں) تاکہ آپ ایسے لوگوں کو ڈرائیں جن کے ہاں آپ سے پہلے کوئی [٦٢] ڈرانے والا نہیں آیا تھا۔ شاید وہ نصیحت قبول کریں۔
1- یعنی اگر آپ رسول برحق نہ ہوتے تو موسیٰ (عليہ السلام) کے اس واقعے کا علم بھی آپ کو نہ ہوتا۔ 2- یعنی آپ کا یہ علم، مشاہدہ و رویت کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ آپ کے پروردگار کی رحمت ہے کہ اس نے آپ کو نبی بنایا اور وحی سے نوازا۔ 3- اس سے مراد، اہل مکہ اور عرب ہیں جن کی طرف نبی (ﷺ) سے پہلے کوئی نبی نہیں آیا، کیونکہ حضرت ابراہیم (عليہ السلام) کے بعد نبوت کا سلسلہ خاندان ابراہیمی ہی میں رہا اور ان کی بعثت بنی اسرائیل کی طرف ہی ہوتی رہی۔ بنی اسماعیل یعنی عربوں میں نبی (ﷺ) پہلے نبی تھے اور سلسلۂ نبوت کے خاتم تھے۔ ان کی طرف نبی بھیجنے کی ضرورت اس لیے نہیں سمجھی گئی ہوگی کہ دوسرے انبیا کی دعوت اور ان کا پیغام ان کو پہنچتا رہا ہوگا۔ کیونکہ اس کے بغیر ان کے لیے کفر وشرک پر جمے رہنے کا عذر موجود رہے گا اور یہ عذر اللہ نے کسی کے لیے باقی نہیں چھوڑا ہے۔