وَأَخِي هَارُونُ هُوَ أَفْصَحُ مِنِّي لِسَانًا فَأَرْسِلْهُ مَعِيَ رِدْءًا يُصَدِّقُنِي ۖ إِنِّي أَخَافُ أَن يُكَذِّبُونِ
اور میرے بھائی ہارون کی زبان مجھ سے زیادہ صاف ہے اسے میرے ساتھ مددگار کے طور پر بھیج تاکہ وہ میری تصدیق کرے! مجھے اندیشہ ہے کہ وہ لوگ [٤٤] مجھے جھٹلا دیں گے
1- اسرائیلی روایات کی رو سے حضرت موسیٰ (عليہ السلام) کی زبان میں لکنت تھی ، جس کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ حضرت موسیٰ (عليہ السلام) کے سامنے آگ کا انگارہ اور کھجور یا موتی رکھے گئے تو آپ نے انگارہ اٹھا کر منہ میں رکھ لیا تھا جس سے آپ کی زبان جل گئی۔ یہ وجہ صحیح ہے یا نہیں۔ تاہم قرآن کریم کی اس نص سے یہ تو ثابت ہے کہ حضرت موسیٰ (عليہ السلام) کے مقابلے میں حضرت ہارون (عليہ السلام) فصیح اللسان تھے اور حضرت موسیٰ (عليہ السلام) کی زبان میں گرہ تھی۔ جس کے کھولنے کی دعا انہوں نے نبوت سے سرفراز ہونے کے بعد کی۔ رِدْءًا کے معنی ہیں معین، مددگار، تقویت پہنچانے والا۔ یعنی ہارون (عليہ السلام) اپنی فصاحت لسانی سے مجھے مدد اور تقویت پہنچائیں گے۔