فَلَمَّا قَضَىٰ مُوسَى الْأَجَلَ وَسَارَ بِأَهْلِهِ آنَسَ مِن جَانِبِ الطُّورِ نَارًا قَالَ لِأَهْلِهِ امْكُثُوا إِنِّي آنَسْتُ نَارًا لَّعَلِّي آتِيكُم مِّنْهَا بِخَبَرٍ أَوْ جَذْوَةٍ مِّنَ النَّارِ لَعَلَّكُمْ تَصْطَلُونَ
پھر جب موسیٰ نے وہ مدت پوری کرلی اور اپنے اہل خانہ [٣٨] کو لے کر چلے تو طور (پہاڑ) کے ایک طرف انھیں آگ نظر آئی، انہوں نے اپنے اہل خانہ سے کہا تم یہاں ٹھہرو میں نے ایک آگ سی دیکھی ہے۔ شاید میں وہاں سے تمہارے لئے کچھ (راستہ کی) خبر یا آگ کا کوئی انگارا ہی [٣٩] اٹھا لاؤں تاکہ تم سینک سکو
1- حضرت ابن عباس (رضی الله عنہ) نے اس مدت سے دس سالہ مدت مراد لی ہے، کیونکہ یہی اکمل اور اطیب (یعنی خسر موسیٰ عليہ السلام کے لیے خوشگوار اور مرغوب) تھی اور حضرت موسیٰ (عليہ السلام) کے کریمانہ اخلاق نے اپنے بوڑھے خسر کی دلی خواہش کے خلاف کرنا پسند نہیں کیا (فتح الباري كتاب الشهادات، باب من أمر بإنجاز الوعد) 2- اس سے معلوم ہوا کہ خاوند اپنی بیوی کو جہاں چاہے لے جاسکتا ہے۔