قَالَ ذَٰلِكَ بَيْنِي وَبَيْنَكَ ۖ أَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ فَلَا عُدْوَانَ عَلَيَّ ۖ وَاللَّهُ عَلَىٰ مَا نَقُولُ وَكِيلٌ
موسیٰ نے جواب دیا : یہ بات میرے اور آپ کے درمیان طے ہوگئی۔ [٣٨] جونہی مدت بھی میں پوری کرو مجھ پر کچھ دباؤ نہ ہوگا۔ اور جو کچھ ہم قول و قرار کر رہے ہیں اس پر اللہ نگہبان ہے۔
1- یعنی آٹھ سال کے بعد یا دس سال کے بعد جانا چاہوں تو مجھ سے مزید رہنے کا مطالبہ نہ کیا جائے۔ 2- یہ بعض کے نزدیک شعیب (عليہ السلام) یا برادر زادہ شعیب (عليہ السلام) کا قول ہے اور بعض کے نزدیک حضرت موسیٰ (عليہ السلام) کا۔ ممکن ہے دونوں ہی کی طرف سے ہو۔ کیونکہ جمع کا صیغہ ہے گویا دونوں نے اس معاملے پر اللہ کو گواہ ٹھہرایا۔ اور اس کے ساتھ ہی ان کی لڑکی اور موسیٰ (عليہ السلام) کے درمیان رشتہ ازدواج قائم ہوگیا۔ باقی تفصیلات اللہ نے ذکر نہیں کی ہیں۔ ویسے اسلام میں طرفین کی رضامندی کے ساتھ صحت نکاح کے لیے دو عادل گواہ بھی ضروری ہیں۔