وَلَمَّا وَرَدَ مَاءَ مَدْيَنَ وَجَدَ عَلَيْهِ أُمَّةً مِّنَ النَّاسِ يَسْقُونَ وَوَجَدَ مِن دُونِهِمُ امْرَأَتَيْنِ تَذُودَانِ ۖ قَالَ مَا خَطْبُكُمَا ۖ قَالَتَا لَا نَسْقِي حَتَّىٰ يُصْدِرَ الرِّعَاءُ ۖ وَأَبُونَا شَيْخٌ كَبِيرٌ
پھر جب وہ مدین کے کنویں پر پہنچے تو دیکھا کہ بہت سے لوگ (اپنے جانوروں کو) پانی پلا رہے ہیں اور ان سے ہٹ کر ایک طرف دو عورتیں (اپنی بکریوں کو) روکے ہوئے کھڑی ہیں۔ موسیٰ نے ان سے پوچھا تمہارا کیا معاملہ ہے؟ وہ کہنے لگیں : ’’ہم اس وقت پانی پلا نہیں سکتیں [٣٢] جب تک یہ چرواہے پانی پلا کر واپس نہ چلے جائیں اور ہمارا باپ بہت بوڑھا ہے‘‘
1- یعنی جب مدین پہنچے تو اس کے کنویں پر دیکھا کہ لوگوں کا ہجوم ہے جو اپنے جانوروں کو پانی پلا رہا ہے۔ مدین یہ قبیلے کا نام تھا اور حضرت ابراہیم (عليہ السلام) کی اولاد سے تھا، جب کہ حضرت موسیٰ (عليہ السلام) حضرت یعقوب (عليہ السلام) کی نسل سے تھے جو حضرت ابراہیم (عليہ السلام) کے پوتے (حضرت اسحاق عليہ السلام کے بیٹے) تھے۔ یوں اہل مدین اور موسیٰ (عليہ السلام) کے درمیان نسبی تعلق بھی تھا (ایسر التفاسیر) اور یہی حضرت شعیب (عليہ السلام) کا مسکن ومبعث بھی تھا۔ 2- دو عورتوں کو اپنے جانور روکے، کھڑے دیکھ کر حضرت موسیٰ (عليہ السلام) کے دل میں رحم آیا اور ان سے پوچھا، کیا بات ہے تم اپنے جانوروں کو پانی نہیں پلاتیں؟ 3- تاکہ مردوں سے ہمارا اختلاط نہ ہو۔ رُعَاءٌ، رَاعٍ (چرواہا) کی جمع ہے۔ 4- اس لیے وہ خود گھاٹ پر پانی پلانے کے لیے نہیں آسکتے۔