وَبَشِّرِ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ۖ كُلَّمَا رُزِقُوا مِنْهَا مِن ثَمَرَةٍ رِّزْقًا ۙ قَالُوا هَٰذَا الَّذِي رُزِقْنَا مِن قَبْلُ ۖ وَأُتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا ۖ وَلَهُمْ فِيهَا أَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ ۖ وَهُمْ فِيهَا خَالِدُونَ
(اے پیغمبر) جو لوگ ایمان [٣٠] لائیں اور اچھے کام کریں انہیں خوشخبری دے دیجئے کہ ان کے لیے ایسے باغات ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں۔ جب بھی انہیں کوئی پھل کھانے کو دیا جائے گا تو کہیں گے ’’یہ تو وہی پھل ہیں جو ہمیں اس سے پہلے (دنیا میں) دیئے جا چکے ہیں۔‘‘ کیونکہ جو پھل انہیں دیا جائے گا وہ شکل و صورت [٣١] میں دنیا کے پھل سے ملتا جلتا ہوگا۔ نیز ان (ایمان والوں) کے لیے وہاں پاک و صاف [٣٢] بیویاں (بھی) ہوں گی۔ اور وہ ان باغات میں ہمیشہ قیام پذیر رہیں گے
1-قرآن کریم نے ہر جگہ ایمان کے ساتھ عمل صالح کا تذکرہ فرما کر اس بات کو واضح کردیا ہے کہ ایمان اور عمل صالح ان دونوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ عمل صالح کے بغیر ایمان ثمر آور نہیں اور ایمان کے بغیر اعمال خیر کی عنداللہ کوئی اہمیت نہیں۔ اور عمل صالح کیا ہے؟ جو سنت کے مطابق ہو اور خالص رضائے الٰہی کی نیت سے کیا جائے۔ خلاف سنت عمل بھی نامقبول اور نمود ونمائش اور ریاکاری کے لئے کئے گئے عمل بھی مردود ومطرود۔ 2- مُتَشَابِهًا کا مطلب یا تو جنت کے تمام میووں کا آپس میں ہم شکل ہونا ہے، یا دنیا کے میووں کے ہم شکل ہونا۔ تاہم یہ مشابہت صرف شکل یا نام کی حد تک ہی ہوگی، ورنہ جنت کے میووں کے مزے اور ذائقے سے دنیا کے میووں کو کوئی نسبت ہی نہیں ہے۔ جنت کی نعمتوں کی بابت حدیث میں ہے :[ مَا لا عَينٌ رَأَتْ، وَلا أُذُنٌ سَمِعَتْ، وَلا خَطَرَ عَلَى قَلْبِ بَشَرٍ ] (صحیح بخاری، تفسیر الم السجدۂ) ”نہ کسی آنکھ نے انہیں دیکھا، نہ کسی کان نے ان کی بابت سنا (اور دیکھنا سننا تو کجا) کسی انسان کے دل میں ان کا گمان بھی نہیں گزرا۔“ 3- یعنی حیض ونفاس اور دیگر آلائشوں سے پاک ہوں گی۔ 4- خُلُودٌ کے معنی ہمیشگی کے ہیں۔ اہل جنت ہمیشہ ہمیش کے لئے جنت میں رہیں گے اور خوش رہیں گے اور اہل دوزخ ہمیشہ ہمیش کے لئے جہنم میں رہیں گے اور مبتلائے عذاب رہیں گے۔ حدیث میں ہے۔ جنت اور جہنم میں جانے کے بعد ایک فرشتہ اعلان کرے گا ”اے جہنمیو! اب موت نہیں ہے اور اے جنتیو! اب موت نہیں ہے۔ جو فریق جس حالت میں ہے، اسی حالت میں ہمیشہ رہے گا۔“ (صحيح بخاري، كتاب الرقاق، باب يدخل الجنة سبعون ألفا- وصحيح مسلم كتاب الجنة)۔