فَرَدَدْنَاهُ إِلَىٰ أُمِّهِ كَيْ تَقَرَّ عَيْنُهَا وَلَا تَحْزَنَ وَلِتَعْلَمَ أَنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ
چنانچہ (اس طرح) ہم نے موسیٰ کو اس کی والدہ ہی کی طرف لوٹا دیا تاکہ وہ [١٩] اپنی آنکھ ٹھنڈی کرے اور غمزدہ نہ رہے اور یہ جان لے کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے۔ اکثر لوگ [٢٠] یہ بات نہیں جانتے۔
1- چنانچہ انہوں نے ہمشیرہ موسیٰ (عليہ السلام) سے کہا کہ جا اس عورت کو لے آ، چنانچہ وہ دوڑی دوڑی گئی اور اپنی ماں کو، جو موسیٰ (عليہ السلام) کی بھی ماں تھی، ساتھ لے آئی۔ 2- جب حضرت موسیٰ (عليہ السلام) نے اپنی والدہ کا دودھ پی لیا، تو فرعون نے والدۂ موسیٰ سے محل میں رہنے کی استدعا کی تاکہ بچے کی صحیح پرورش اور نگہداشت ہوسکے۔ لیکن انہوں نے کہا کہ میں اپنے خاوند اور بچوں کو چھوڑ کر یہاں نہیں رہ سکتی۔ بالآخر یہ طے پایا کہ بچے کو وہ اپنے ساتھ ہی اپنے گھر لے جائیں اور وہیں اس کی پرورش کریں اور اس کی اجرت انہیں شاہی خزانے سے دی جائے گی ، سبحان اللہ ! اللہ کی قدرت کے کیا کہنے، دودھ اپنے بچے کو پلائیں اور تنخواہ فرعون سے وصول کریں، رب نے موسیٰ (عليہ السلام) کو واپس لوٹانے کا وعدہ کس احسن طریقے سے پورا فرمایا۔ ﴿فَسُبْحَانَ الَّذِي بِيَدِهِ مَلَكُوتُ كُلِّ شَيْءٍ﴾ ایک مرسل روایت میں ہے ”اس کاریگر کی مثال جو اپنی بنائی ہوئی چیز میں ثواب اور خیر کی نیت بھی رکھتا ہے، موسیٰ (عليہ السلام) کی ماں کی طرح ہے جو اپنے ہی بچے کو دودھ پلاتی ہے اور اس کی اجرت بھی وصول کرتی ہے“ (مراسیل أبی داود) 3- یعنی بہت سے کام ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے انجام کی حقیقت سے اکثر لوگ بےعلم ہوتے ہیں لیکن اللہ کو اس کے حسن انجام کا علم ہوتا ہے۔ اسی لیے اللہ نے فرمایا ”ہوسکتا ہے جس چیز کو تم برا سمجھو، اس میں تمہارے لیے خیر ہو اور جس چیز کو تم پسند کرو، اس میں تمہارے لیے شرکا پہلو ہو“ (البقرۃ: 216) دوسرے مقام پر فرمایا ”ہوسکتا ہے تم کسی چیز کو برا سمجھو، اور اللہ اس میں تمہارے لیے خیر کثیر پیدا فرما دے“ (النساء: 19) اس لیے انسان کی بہتری اسی میں ہے کہ وہ اپنی پسند وناپسند سے قطع نظر ہر معاملے میں اللہ اور رسول کے احکام کی پابندی کرلے کہ اسی میں اس کے لیے خیر اور حسن انجام ہے۔