وَيَوْمَ يُنفَخُ فِي الصُّورِ فَفَزِعَ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَمَن فِي الْأَرْضِ إِلَّا مَن شَاءَ اللَّهُ ۚ وَكُلٌّ أَتَوْهُ دَاخِرِينَ
اور جس دن صور پھونکا [٩٢] جائے گا تو جو کوئی بھی آسمانوں میں یا زمین میں ہوگا سب گھبرا اٹھیں گے بجز ان کے جنہیں اللہ اس ہول [٩٣] سے بچانا چاہے گا۔ اور یہ سب حقیر [٩٤] بن کر اللہ کے حضور پیش ہوجائیں گے۔
1- صور سے مراد وہی قرن ہے جس میں اسرافیل (عليہ السلام) اللہ کے حکم سے پھونک ماریں گے۔ یہ نفخے دو یا دو سے زیادہ ہوں گے۔ پہلے نفخے (پھونک) میں ساری دنیا گھبرا کر بےہوش اور دوسرے نفخے میں موت سے ہمکنار ہوجائے گی۔ تیسرے نفخے میں سب لوگ قبروں سے زندہ ہوکر اٹھ کھڑے ہوں گے اور بعض کے نزدیک ایک اور چوتھا نفخہ ہوگا جس سے سب لوگ میدان محشر میں اکٹھے ہو جائیں گے۔ یہاں کون سا نفخہ مراد ہے؟ امام ابن کثیر کے نزدیک یہ پہلا نفخہ اور امام شوکانی کے نزدیک تیسرا نفخہ ہے جب لوگ قبروں سے اٹھیں گے۔ 2- یہ مستثنیٰ لوگ کون ہوں گے۔ بعض کے نزدیک انبیا وشہدا، بعض کے نزدیک فرشتے اور بعض کے نزدیک سب اہل ایمان ہیں۔ امام شوکانی فرماتے ہیں کہ ممکن ہے کہ تمام مذکورین ہی اس میں شامل ہوں کیونکہ اہل ایمان حقیقی گھبراہٹ سے محفوظ ہوں گے (جیسا کہ آگے آرہا ہے)