قَدْ كَانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ الْتَقَتَا ۖ فِئَةٌ تُقَاتِلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَأُخْرَىٰ كَافِرَةٌ يَرَوْنَهُم مِّثْلَيْهِمْ رَأْيَ الْعَيْنِ ۚ وَاللَّهُ يُؤَيِّدُ بِنَصْرِهِ مَن يَشَاءُ ۗ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَعِبْرَةً لِّأُولِي الْأَبْصَارِ
تمہارے لیے ان دو گروہوں میں نشان عبرت ہے جو (بدر میں) ایک دوسرے کے مقابلہ پر اترے۔ ان میں سے ایک گروہ تو اللہ کی راہ میں لڑ رہا تھا اور دوسرا گروہ کافر تھا جو ظاہری آنکھوں سے مسلمانوں کو اپنے سے دو چند دیکھ رہا تھا۔ مگر اللہ تو اپنی مدد [١٤] سے اس کی تائید کرتا ہے جس کی وہ چاہتا ہے۔ اس واقعہ میں بھی صاحب نظر لوگوں کے لیے سامان عبرت ہے
1- یعنی ہر فریق، دوسرے فریق کو اپنے سے دوگنا دیکھتا تھا۔ کافروں کی تعداد ایک ہزار کے قریب تھی، انہیں مسلمان دو ہزار کے قریب دکھائی دیتے تھے۔ مقصد اس سے ان کے دلوں میں مسلمانوں کی دھاک بٹھانا تھا۔ اور مسلمانوں کی تعداد تین سو سے کچھ اوپر (یا 313 ) تھی، انہیں کافر 600 اور 700 کے درمیان نظر آتے تھے۔ دراں حالیکہ ان کی اصل تعداد ہزار کے قریب (تین گنا) تھی مقصد اس سے مسلمانوں کے عزم وحوصلہ میں اضافہ کرنا تھا۔ اپنے سے تین گنا دیکھ کر ممکن تھا مسلمان مرعوب ہو جاتے۔ جب وہ تین گنا کے بجائے دو گنا نظر آئےتو ان کا حوصلہ پست نہیں ہوا۔ لیکن یہ دگنا دیکھنے کی کیفیت ابتدا میں تھی، پھر جب دونوں گروہ آمنے سامنے صف آرا ہو گئے تو اللہ تعالیٰ نے اس کے برعکس دونوں کو ایک دوسرے کی نظروں میں کم کرکے دکھایا تاکہ کوئی بھی فریق لڑائی سے گریز نہ کرے بلکہ ہر ایک پیش قدمی کی کوشش کرے (ابن کثیر) یہ تفصیل سورۃ الانفال۔ آیت 44 میں بیان کی گئی ہے۔ یہ جنگ بدر کا واقعہ ہے جو ہجرت کے بعد دوسرے سال مسلمانوں اور کافروں کے درمیان پیش آیا۔ یہ کئی لحاظ سے نہایت اہم جنگ تھی۔ ایک تو اس لیے کہ یہ پہلی جنگ تھی۔ دوسرے، یہ جنگی منصوبہ بندی کے بغیر ہوئی۔ مسلما ن ابو سفیان کے قافلے کے لئے نکلے تھے جو شام سے سامان تجارت لے کر مکہ جا رہا تھا، مگر اطلاع مل جانے کی وجہ سے وہ اپنا قافلہ تو بچا کر لے گیا، لیکن کفار مکہ اپنی طاقت وکثرت کے گھمنڈ میں مسلمانوں پر چڑھ دوڑے اور مقام بدر میں یہ پہلا معرکہ برپا ہوا۔ تیسرے، اس میں مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ کی خصوصی مدد حاصل ہوئی، چوتھے، اس میں کافروں کو عبرت ناک شکست ہوئی، جس سے آئندہ کے لئے کافروں کے حوصلے پست ہوگئے۔