سورة الشعراء - آیت 82
وَالَّذِي أَطْمَعُ أَن يَغْفِرَ لِي خَطِيئَتِي يَوْمَ الدِّينِ
ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب
اور جس سے میں توقع رکھتا ہوں کہ قیامت کے دن میری خطائیں معاف [٥٨] کر دے گا
تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ
1- یہاں امید، یقین کےمعنی میں ہے۔ کیونکہ کسی بڑی شخصیت سے امید، یقین کے مترادف ہی ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ تو کائنات کی سب سے بڑی ہستی ہے، اس سے وابستہ امید، یقینی کیوں نہیں ہوگی۔ اسی لیے مفسرین کہتے ہیں کہ قرآن میں جہاں بھی اللہ کے لیے عَسَى کا لفظ استعمال ہوا ہے وہ یقین ہی کے مفہوم میں ہے۔ خَطِيْئَتِي، خَطِيئَةٌ واحد کا صیغہ ہے لیکن خَطَايَا (جمع) کے معنی میں ہے۔ انبیا علیہم السلام اگرچہ معصوم ہوتے ہیں۔ اس لیے ان سے کسی بڑے گناہ کا صدور ممکن نہیں۔ پھر بھی اپنے بعض افعال کو کوتاہی پر محمول کرتے ہوئےبارگاہ الٰہی میں عفو طلب ہوں گے۔