وَلَقَدْ صَرَّفْنَاهُ بَيْنَهُمْ لِيَذَّكَّرُوا فَأَبَىٰ أَكْثَرُ النَّاسِ إِلَّا كُفُورًا
ہم نے یہ بات مختلف طریقوں سے ان کے سامنے بیان کی ہے تاکہ وہ کچھ سبق حاصل کریں [٦٣]۔ لیکن اکثر لوگ کے سوا کوئی اور بات تسلیم ہی نہیں کرتے
1- یعنی قرآن کریم کو۔ اور بعض نے صَرَّفْنَاهُ میں ھا کا مرجع بارش قرار دیا ہے، جس کا مطلب یہ ہوگا کہ بارش کو ہم پھیر پھیر کر برساتے ہیں یعنی کبھی ایک علاقے میں، کبھی دوسرے علاقے میں۔ حتیٰ کہ بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کبھی ایک ہی شہر کے ایک حصے میں بارش ہوتی ہے، دوسروں میں نہیں ہوتی اور کبھی دوسرے حصوں میں ہوتی ہے، پہلے حصے میں نہیں ہوتی یہ اللہ کی حکمت ومشیت ہے، وہ جس طرح چاہتا ہے، کہیں بارش برساتا ہے اور کہیں نہیں اور کبھی کسی علاقے میں اور کبھی کسی اور علاقے میں۔ 2- اور ایک کفر اور ناشکری یہ بھی ہے کہ بارش کو مشیت الٰہی کی بجائے ستاروں کی گردش کا نتیجہ قرار دیا جائے، جیسا کہ اہل جاہلیت کہا کرتے تھے۔ کما فی الحدیث۔