وَلَقَدْ أَتَوْا عَلَى الْقَرْيَةِ الَّتِي أُمْطِرَتْ مَطَرَ السَّوْءِ ۚ أَفَلَمْ يَكُونُوا يَرَوْنَهَا ۚ بَلْ كَانُوا لَا يَرْجُونَ نُشُورًا
اور اس بستی پر تو ان کا گزر ہوچکا ہے جس پر بدترین بارش برسائی [٥٢] گئی تھی۔ کیا انہوں نے اس بستی کا حال نہ دیکھا ہوگا ؟ لیکن (اصل معاملہ یہ ہے کہ) یہ لوگ موت کے بعد دوسری زندگی کی توقع ہی نہیں رکھتے۔
1- بستی سے، قوم لوط کی بستیاں سدوم اور عمورہ وغیرہما مراد ہیں اوربری بارش سے پتھروں کی بارش مراد ہے۔ ان بستیوں کوالٹ دیا گیا تھا اور اس کےبعد ان پر کھنگر پتھروں کی بارش کی گئی تھی جیسا کہ سورۂ ہود۔ 82 میں بیان کیاگیا ہے۔ یہ بستیاں شام وفلسطین کے راستے میں پڑتی ہیں، جن سے گزر کر ہی اہل مکہ آتے جاتے تھے۔ 2- اس لیےان تباہ شدہ بستیوں اوران کے کھنڈرات دیکھنے کے باوجود عبرت نہیں پکڑتے۔ اورآیات الٰہی اور اللہ کے رسول کی تکذیب سے باز نہیں آتے۔