وَقَالَ الَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَاءَنَا لَوْلَا أُنزِلَ عَلَيْنَا الْمَلَائِكَةُ أَوْ نَرَىٰ رَبَّنَا ۗ لَقَدِ اسْتَكْبَرُوا فِي أَنفُسِهِمْ وَعَتَوْا عُتُوًّا كَبِيرًا
اور جو لوگ ہم سے ملنے کی امید نہیں رکھتے وہ کہتے ہیں، ہم پر فرشتے کیوں نہیں اترے یا ہم ہی اپنے پروردگار کو (آنکھوں سے) [٢٩] دیکھ لیں؟ یہ اپنے دل میں بہت بڑے بن بیٹھے ہیں اور بہت بری سرکشی میں مبتلا [٣٠] ہوچکے ہیں۔
1- یعنی کسی انسان کو رسول بنا کر بھیجنے کے بجائے ، کسی فرشتے کو رسول بنا کر بھیجا جاتا۔ یا یہ مطلب ہے کہ پیغمبر کے ساتھ فرشتے بھی نازل ہوتے، جنہیں ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے اور وہ اس بشر رسول کی تصدیق کرتے۔ 2- یعنی رب آکر ہمیں کہتا کہ محمد (ﷺ) میرا رسول ہے اور اس پر ایمان لانا تمارے لیے ضروری ہے۔ 3- اسی استکبار اور سرکشی کا نتیجہ ہے کہ وہ اس قسم کے مطالبے کر رہے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی منشا کے خلاف ہیں۔ اللہ تعالیٰ تو ایمان بالغیب کے ذریعے سے انسانوں کو آزماتا ہے۔ اگر وہ فرشتوں کو ان کی آنکھوں کے سامنے اتار دے یا آپ خود زمین پر نزول فرمالے تو اس کے بعد ان کی آزمائش کا پہلو ہی ختم ہو جائے اس لیے اللہ تعالیٰ ایسا کام کیوں کر کر سکتا ہے جو اس کی حکمت تخلیق اور مشیت تکوینی کے خلاف ہے؟