وَإِن كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَىٰ مَيْسَرَةٍ ۚ وَأَن تَصَدَّقُوا خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ
اور اگر مقروض تنگ دست ہے تو اسے اس کی آسودہ حالی تک مہلت دینا چاہیے۔ اور اگر (راس المال بھی) چھوڑ ہی دو تو یہ تمہارے [٤٠٠] لیے بہت بہتر ہے۔ اگر تم یہ بات سمجھ سکو
1- زمانۂ جاہلیت میں قرض کی ادائیگی نہ ہونے کی صورت میں سود در سود، اصل رقم میں اضافہ ہی ہوتا چلا جاتا تھا، جس سے وہ تھوڑی سی رقم ایک پہاڑ بن جاتی اور اس کی ادائیگی ناممکن ہوجاتی۔ اس کے برعکس اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ کوئی تنگ دست ہو تو (سود لینا تو درکنار اصل مال لینے میں بھی) آسانی تک اسے مہلت دے دو اور اگر قرض بالکل ہی معاف کر دو تو زیادہ بہتر ہے، احادیث میں بھی اس کی بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ کتنا فرق ہے ان دونوں نظاموں میں ؟ ایک سراسر ظلم، سنگ دلی اور خود غرضی پر مبنی نظام اور دوسرا ہمدردی، تعاون اور ایک دوسرے کو سہارا دینے والا نظام۔ مسلمان خود ہی اس بابرکت اور پررحمت نظام الٰہی کو نہ اپنائیں تو اس میں اسلام کا کیا قصور اور اللہ پر کیا الزام ؟ کاش مسلمان اپنے دین کی اہمیت و افادیت کو سمجھ سکیں اور اس پر اپنے نظام زندگی کو استوار کرسکیں۔