وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَىٰ لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِّن بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا ۚ يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا ۚ وَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ
تم میں سے جو مومن ہیں اور نیک کام کرتے ہیں ان سے اللہ نے وعدہ کر رکھا ہے کہ وہ انھیں زمین میں ایسے ہی خلافت عطا کرے [٨٣] گا جیسے تم سے پہلے کے لوگوں کو عطا کی تھی اور ان کے اس دین کو مضبوط کرے گا جسے اس نے ان کے لئے پسند کیا ہے اور ان کی حالت خود کو امن میں تبدیل کردے گا۔ پس وہ میری ہی عبادت کریں گے اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائیں گے اور جو اس کے بعد کفر کرے [٨٤] تو ایسے ہی لوگ فاسق ہیں۔
1- بعض نے اس وعدۂ الٰہی کو صحابہ کرام کے ساتھ یا خلفائے راشدین کے ساتھ خاص قرار دیا ہے لیکن اس کی تخصیص کی کوئی دلیل نہیں۔ قرآن کے الفاظ عام ہیں اور ایمان وعمل صالح کے ساتھ مشروط ہیں۔ البتہ یہ بات ضرور ہے کہ عہد خلافت راشدہ اور عہد خیرالقرون میں، اس وعدۂ الٰہی کا ظہور ہوا، اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو زمین پر غلبہ عطا فرمایا، اپنے پسندیدہ دین اسلام کو عروج دیا اور مسلمانوں کے خوف کو، امن سے بدل دیا۔ پہلے مسلمان کفار عرب سے ڈرتے تھے، پھر اس کے برعکس معاملہ ہوگیا۔ نبی کریم (ﷺ) نے بھی جو پیش گوئیاں فرمائی تھیں، وہ بھی اس عہد میں پوری ہوئیں۔ مثلاً آپ (ﷺ) نے فرمایا تھا کہ حیرہ سے ایک عورت تن تنہا اکیلی چلے گی اور بیت اللہ کا آکر طواف کرے گی، اسے کوئی خوف اور خطرہ نہیں ہوگا۔ کسریٰ کے خزانے تمہارے قدموں میں ڈھیر ہوجائیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا (صحيح بخاری، كتاب المناقب، باب علامات النبوة في الإسلام) نبی کریم (ﷺ) نے یہ بھی فرمایا تھا [ إِنَّ اللهَ زَوَى لِيَ الأَرْضَ، فَرَأَيْتُ مَشَارِقَهَا وَمَغَارِبَهَا، وَإِنَّ أُمَّتِي سَيَبْلُغُ مُلْكُهَا مَا زُوِيَ لِي مِنْهَا ] (صحيح مسلم كتاب الفتن وأشراط الساعة- باب هلاك هذه الأمة بعضهم ببعض) ”اللہ تعالیٰ نے زمین کو میرے لئے سکیڑ دیا، پس میں نے اس کے مشرقی اور مغربی حصے دیکھے، عنقریب میری امت کا دائرہ اقتدار وہاں تک پہنچے گا، جہاں تک میرے لئے زمین سکیڑ دی گئی“۔ حکمرانی کی یہ وسعت بھی مسلمانوں کے حصے میں آئی، اور فارس وشام اور مصروافریقہ اور دیگر دوردراز کے ممالک فتح ہوئے اور کفر وشرک کی جگہ توحید وسنت کی مشعلیں ہر جگہ روشن ہوگئیں اور اسلامی تہذیب وتمدن کا پھریرا چار دانگ عالم میں لہرا گیا۔ لیکن یہ وعدہ چونکہ مشروط تھا، جب مسلمان ایمان میں کمزور اور عمل صالح میں کوتاہی کے مرتکب ہوئے تو اللہ نے ان کی عزت کو ذلت میں، ان کے اقتدار اور غلبے کو غلامی میں اور ان کے امن و استحکام کو خوف اور دہشت میں بدل دیا۔ 2- یہ بھی ایمان اور عمل صالح کے ساتھ ایک اور بنیادی شرط ہے جس کی وجہ سے مسلمان اللہ کی مدد کے مستحق، اور اس وصف توحید سے عاری ہونے کے بعد وہ اللہ کی مدد سے محروم ہوجائیں گے۔ 3- اس کفر سے مراد، وہی ایمان، عمل صالح اور توحید سے محرومی ہے، جس کے بعد ایک انسان اللہ کی اطاعت سے نکل جاتا اور کفر وفسق کے دائرے میں داخل ہوجاتا ہے۔