أَفِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ أَمِ ارْتَابُوا أَمْ يَخَافُونَ أَن يَحِيفَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ وَرَسُولُهُ ۚ بَلْ أُولَٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ
کیا ان کے دلوں میں (نفاق کا) روگ ہے یا وہ شک میں پڑے ہوئے ہیں یا وہ اس بات سے ڈرتے ہیں کہ اللہ اور اس کا رسول ان کی حق تلفی [٧٨] کر جائیں گے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ خود ہی ظالم ہیں۔
1- جب فیصلہ ان کے خلاف ہونے کا امکان ہوتا ہے تو اس سے اعراض وگریز کی وجہ بیان کی جارہی ہےکہ یا تو ان کے دلوں میں کفر ونفاق کا روگ ہے یا انہیں نبوت محمدی میں شک ہے یا انہیں اس بات کا اندیشہ ہے کہ ان پر اللہ اور اس کا رسول (ﷺ) ظلم کرے گا، حالانکہ ان کی طرف سے ظلم کا کوئی امکان ہی نہیں، بلکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ خود ہی ظالم ہیں۔ امام شوکانی فرماتے ہیں کہ جب قضا وفیصلے کے لئے ایسے حاکم وقاضی کی طرف بلایا جائے جو عادل اور قرآن وسنت کا عالم ہو، تو اس کے پاس جانا ضروری ہے۔ البتہ اگر وہ قاضی کتاب وسنت کے علم اور ان کے دلائل سے بےبہرہ ہو تو اس کے پاس فیصلے کے لئے جانا ضروری نہیں۔