أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يُزْجِي سَحَابًا ثُمَّ يُؤَلِّفُ بَيْنَهُ ثُمَّ يَجْعَلُهُ رُكَامًا فَتَرَى الْوَدْقَ يَخْرُجُ مِنْ خِلَالِهِ وَيُنَزِّلُ مِنَ السَّمَاءِ مِن جِبَالٍ فِيهَا مِن بَرَدٍ فَيُصِيبُ بِهِ مَن يَشَاءُ وَيَصْرِفُهُ عَن مَّن يَشَاءُ ۖ يَكَادُ سَنَا بَرْقِهِ يَذْهَبُ بِالْأَبْصَارِ
کیا تم دیکھتے نہیں کہ اللہ بادل کو آہستہ آہستہ [٧٠] چلاتا ہے پھر بادل (کے اجرائ) کو آپس میں ملا دیتا ہے پھر اسے تہ بہ تہ بنا دیتا ہے پھر تو دیکھتا ہے کہ اس کے درمیان سے بارش کے قطرے ٹپکتے ہیں اور وہ آسمان سے ان پہاڑوں کی بدولت جو اس میں بلند ہیں، اولے برساتا ہے پھر جسے چاہتا ہے ان سے نقصان پہنچاتا ہے اور جسے چاہتا ہے ان سے بچا لیتا ہے۔ اس کی بھی چمک آنکھوں کو خیرہ [٧١] کردیتی ہے
1- اس کا ایک مطلب تو یہی ہے جو ترجمے میں اختیار کیا گیا ہے کہ آسمان میں اولوں کے پہاڑ ہیں جن سے وہ اولے برساتا ہے۔ (ابن کثیر) دوسرا مطلب یہ بیان کیا گیا ہے کہ سماء بلندی کےمعنی میں ہے اور جبال کے معنی ہیں بڑے بڑے ٹکڑے، پہاڑوں جیسے، یعنی اللہ تعالیٰ آسمانوں سے بارش ہی نہیں برساتا بلکہ بلندیوں سے جب چاہتا ہے برف کے بڑے بڑے ٹکڑے بھی نازل فرماتا ہے، (فتح القدیر) یا پہاڑ جیسے بڑے بڑے بادلوں سے اولے برساتا ہے۔ 2- یعنی وہ اولے اور بارش بطور رحمت جنہیں چاہتا ہے، پہنچاتا ہے اور جنہیں چاہتا ہے ان سے محروم رکھتا ہے۔ یا یہ مطلب ہے کہ ژالہ باری (اولے) کے عذاب سے جسے چاہتا ہے دوچار کر دیتا ہے۔ جس سے ان کی فصلیں تباہ اور کھیتیاں برباد ہو جاتی ہیں اور جن پر اپنی رحمت کرنا چاہتا ہے ان کو اس سے بچا لیتا ہے۔ 3- یعنی بادلوں میں چمکنے والی بجلی، جو عام طور پر بارش کی نوید جاں فزاں ہوتی ہے اس میں اتنی شدت کی چمک ہوتی ہے کہ وہ آنکھوں کی بصارت لے جانے کے قریب ہو جاتی ہے۔ یہ بھی اس کی صناعی کاایک نمونہ ہے۔