اللَّهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكَاةٍ فِيهَا مِصْبَاحٌ ۖ الْمِصْبَاحُ فِي زُجَاجَةٍ ۖ الزُّجَاجَةُ كَأَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ يُوقَدُ مِن شَجَرَةٍ مُّبَارَكَةٍ زَيْتُونَةٍ لَّا شَرْقِيَّةٍ وَلَا غَرْبِيَّةٍ يَكَادُ زَيْتُهَا يُضِيءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ ۚ نُّورٌ عَلَىٰ نُورٍ ۗ يَهْدِي اللَّهُ لِنُورِهِ مَن يَشَاءُ ۚ وَيَضْرِبُ اللَّهُ الْأَمْثَالَ لِلنَّاسِ ۗ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ
اللہ ہی آسمانوں اور زمین کا نور [٥٩] ہے۔ اس کے نور کی مثال ایک ایسی ہے جیسے ایک طاق ہو جس میں ایک چراغ ہو، یہ چراغ فانوس میں رکھا ہوا ہو، وہ فانوس ایسا صاف شفاف ہو جیسے ایک چمکتا ہوا ستارہ۔ اور وہ چراغ زیتون کے مبارک درخت (کے تیل) سے روشن کیا جاتا ہو جو نہ مشرق میں ہوتا ہے اور نہ مغرب میں۔ اس کے تیل کو اگر آگ نہ بھی چھوئے تو بھی وہ از خود بھرک اٹھنے کے قریب ہوتا ہے (اسی طرح) روشنی پر روشنی [٦٠] (بڑھنے کے تمام اسباب جمع ہوگئے ہوں) اللہ اپنے ایسے ہی زر کی طرف جسے چاہتا ہے، رہنمائی [٦١] کردیتا ہے۔ اور اللہ مثالیں بیان کرکے لوگوں کو سمجھاتا ہے اور وہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔
1- یعنی اگر اللہ نہ ہوتا تو نہ آسمان میں نور ہوتا نہ زمین میں، نہ آسمان وزمین میں کسی کو ہدایت ہی نصیب ہوتی۔ پس وہ اللہ تعالیٰ ہی آسمان وزمین کو روشن کرنے والا ہے اس کی کتاب نور ہے، اس کا رسول (بہ حیثیت صفات کے) نور ہے۔ یعنی ان دونوں کے ذریعے سے زندگی کی تاریکیوں میں رہنمائی اور روشنی حاصل کی جاتی ہے، جس طرح چراغ اور بلب سے انسان روشنی حاصل کرتا ہے۔ حدیث میں بھی اللہ کا نور ہونا ثابت ہے۔ [ وَلَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ نُورُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ وَمَنْ فِيهِنَّ ] (البخاری، باب التهجد بالليل، ومسلم كتاب صلاة المسافرين باب الدعاء في صلاة الليل) پس اللہ، اس کی ذات نور ہے، اس کا حجاب نور ہے اور ہر ظاہری اور معنوی نور کا خالق، اس کا عطا کرنے والا اور اس کی طرف ہدایت کرنے والا صرف ایک اللہ ہے (ایسرالتفاسیر)۔ 2- یعنی جس طرح ایک طاق میں ایسا چراغ ہو، جو شیشے کی قندیل میں ہو، اس میں ایک بابرکت درخت کا ایسا خاص تیل ڈالا گیا ہو کہ وہ آگ (دیا سلائی) دکھائے بغیر ہی بذات خود روشن ہوجانے کے قریب ہو۔ یوں یہ ساری روشنیاں ایک طاق میں مجتمع ہوگئیں اور وہ بقعہ نور بن گیا۔ اسی طرح اللہ کے نازل کردہ دلائل وبراہین کی حیثیت ہے کہ وہ واضح بھی ہیں اور ایک سے ایک بڑھ کر بھی یعنی نور علیٰ نور جو مشرقی ہے، نہ مغربی کا مطلب ہے، وہ درخت ایسے کھلے میدان اور صحرا میں ہے کہ اس پر دھوپ صرف سورج کے چڑھنے کے وقت یا غروب کے وقت ہی نہیں پڑتی، بلکہ سارا دن وہ دھوپ میں رہتا ہے اور ایسے درخت کا پھل بہت عمدہ ہوتا ہے اور مراد اس سے زیتون کا درخت ہے جس کا پھل اور تیل سالن کے طور پر بھی استعمال ہوتا ہے اور چراغ میں تیل کے طور پر بھی۔ 3- نُورٌ سے مراد ایمان و اسلام ہے، یعنی اللہ تعالیٰ جن کے اندر ایمان کی رغبت اور اس کی طلب دیکھتا ہے، ان کی اس نور کی طرف رہنمائی فرما دیتا ہے، جس سے دین و دنیا کی سعادتوں کے دروازے ان کے لئے کھل جاتے ہیں۔ 4- جس طرح اللہ نے یہ مثال بیان فرمائی، جس میں اس نے ایمان کو اور اپنے مومن بندے کے دل میں اس کے راسخ ہونے اور بندوں کے احوال قلوب کا علم رکھنے کو واضح فرمایا کہ کون ہدایت کا اہل ہے اور کون نہیں۔