وَأَنكِحُوا الْأَيَامَىٰ مِنكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ ۚ إِن يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ ۗ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ
اور تم میں سے جو لوگ مجرد [٥٠] ہیں ان کے نکاح کردو۔ اور اپنے لونڈی، غلاموں کے بھی جو نکاح کے قابل [٥١] ہوں۔ اگر وہ محتاج ہیں تو اللہ اپنی مہربانی [٥٢] سے انھیں غنی کردے گا۔ اور اللہ بڑی وسعت والا اور جاننے والا ہے۔
1- ۔أَيَامَى، أَيِّمٌ کی جمع ہے، أَيِّمٌ ایسی عورت کو کہا جاتا ہے جس کا خاوند نہ ہو، جس میں کنواری، بیوہ اور مطلقہ تینوں آجاتی ہیں۔ اور ایسے مرد کو بھی أَيِّمٌ کہتے ہیں جس کی بیوی نہ ہو۔ آیت میں خطاب اولیاء سے ہے کہ نکاح کر دو، یہ نہیں فرمایا کہ نکاح کر لو، کہ مخاطب نکاح کرنے والے مردو عورت ہوتے۔ اس سے معلوم ہوا کہ عورت ولی کی اجازت اور رضامندی کے بغیر از خود اپنا نکاح نہیں کرسکتی۔ جس کی تائید احادیث سے بھی ہوتی ہے۔ اسی طرح امر کے صیغے سے بعض نے استدلال کیا ہے کہ نکاح کرنا واجب ہے، جب کہ بعض نے اسے مباح اور بعض نے مستحب قرار دیا ہے۔ تاہم استطاعت رکھنے والے کے لئے یہ سنت موکدہ بلکہ بعض حالات میں واجب ہے اور اس سے اعراض سخت وعید کا باعث ہے۔ نبی (ﷺ) کا فرمان ہے [ وَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي ] (البخاری نمبر 50 63، ومسلم، نمبر 1020 ) "جس نے میری سنت سے اعراض کیا، وہ مجھ سے نہیں۔ 2- یہاں صالحیت سے مراد ایمان ہے، اس میں اختلاف ہے کہ مالک اپنے غلام اور لونڈیوں کو نکاح کرنے پر مجبور کرسکتے ہیں یا نہیں؟ بعض اکراہ کے قائل ہیں، بعض نہیں۔ تاہم اندیشہ ضرر کی صورت میں شرعاً مجبور کرنا جائز ہے۔ بصورت دیگر غیر مشروع (ایسرالتفاسیر)۔ 3- یعنی محض غربت اور تنگ دستی نکاح میں مانع نہیں ہونی چاہیئے۔ ممکن ہے نکاح کے بعد اللہ ان کی تنگ دستی کو اپنے فضل سے وسعت وفراخی میں بدل دے۔ حدیث میں آتا ہے۔ تین شخص ہیں جن کی اللہ ضرور مدد فرماتا ہے۔ 1۔ نکاح کرنے والا، جو پاک دامنی کی نیت سے نکاح کرتا ہے۔ 2۔ مکاتب غلام، جو ادائیگی کی نیت رکھتا ہے۔ 3۔ اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا۔ (ترمذی- أبواب فضائل الجهاد، باب ما جاء في المجاهد والمكاتب والنكاح)۔